ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کا المیہ42سال گزرجانے کے باوجود65کروڑ گیلن کوٹہ سے محروم؟
پانی کا کوٹہ میں 13کروڑکم،پانی کی چوری، رساؤ 32فیصد یعنی18کروڑ گیلن یومیہ تک پہنچ گیا
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی، پانی کا کوٹہ 42سال گزر نے ے باوجود13کروڑ گیلن سے محروم، 18کروڑ گیلن پانی چوری، رساؤ کا انکشاف ہوا ہے نسپاک سرکاری کنسلٹنٹ نے رپورٹ ورلڈبینک پیش کردیا ہے(کے ڈبلیو ای ایس آئی پی) اور واٹر کارپوریشن افسران نے تصدیق کی ہے ۔
رپورٹ ایک سال گزر جانے کے باوجودواٹر بورڈ کے چیئرمین و میئرکراچی مرتضی وہاب اور سندھ حکومت نے مکمل چپ سادہ لی ہے، جبکہ حب کینال گیلن سے 4کروڑ گیلن رساؤ پر 14ارب روپے خرچ کردیا گیا اور اخراجات میں مذید اضافہ ہونے کا قومی امکان ہے،جس میں کراچی کے کو ٹہ میں ایک بوند کا اضافہ نہ ہوسکا، اورکینال، نہر سے پانی کی کھلے عام چوری، کنڈٹ لائن، سائفن، پائپوں سے چوری اور رساؤ کا سلسلہ جاری ہے۔

کراچی کو پانی کی سپلائی میں تلافی نقصان پہنچایا
جارہا ہے، یہ سلسلہ جاری رہا ہے 13کروڑ گیلن کے
پروجیکٹ کا فیصلہ واٹر کارپوریشن کے چیئرمین و میئر
کراچی مرتضی وہاب کے سپردکردیا ہے۔
اس بارے میں (کے ڈبلیو ای ایس آئی پی) نے تصدیق کیا ہے، تو آئندہ موسم سرما کے بعد پانی کا بحران سنگین تر ہوسکتا ہے اور خدشہ ہے اور مختلف علاقوں میں فسادات پھوٹنے کا خطرہ بڑھ جائے گا42سال قبل کراچی سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں 1200کیوسک (یعنی 650ملین گیلن یومیہ پانی)کوٹہ طے کیا گیاتھا۔
اب تک13کروڑ گیلن یومیہ کی فراہمی نہ ہوسکا اور کٹوتی کے باوجود پانی کا کوئی منصوبہ شروع نہ ہوسکا کراچی کا نیا کوٹہ 1200کیوسک یعنی 65کروڑ گیلن پانی کا کوٹہ منظوری کے بغیر کراچی کا میگا پروجیکٹ K-4منصوبہ کا ٓغاز کرنا چاہیے۔
نسپاک سرکاری کنسلٹنٹ کمپنی رپور ٹ کے باوجود کراچی کے پانی کا اہم منصوبہ سردخانے کی نذر کردیاہے اور سندھ حکومت نے 65ملین گیلن یومیہ پانی کا منصوبہ کراچی واٹر اینڈسیوریج کارپوریشن کے 65ملین گیلن پانی کا دوسرا منصوبہ پبلک پرائیویٹ یونٹ سندھ کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھاسردخانہ میں ڈال دیاہے،13کروڑ گیلن منصوبہ پر تقریبا 40ارب روپے خرچ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
جبکہ موجودہ نہریں اورکنیالوں کے پانی کی چوری کو روک تھام کے لئے پانی کی بعض مقامات پر نہریں اور کینالوں اور دیگر مقامات پر16 اوپن ڈیجیٹل میٹر لگانے کالگانے کا متعد د بار اعلان کے باوجود آغاز نہ ہوسکا جبکہ، ان میٹر ز کو سیٹلائٹ (جی آئی ایس) کے ذریعہ نگرانی کیا جائے گامنصوبہ پر ورلڈ بینک مالی اعدادکااعادہ کیاتھا۔
اس ضمن میں چیف انجینئر بلک ظفر پلیجو نے تصدیق کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے پانی کا کوٹہ کی فراہمی ضروری ہے۔
واضح رہے کہ انڈس سے پانی کی فراہمی کے منصوبہ میں پہلی 1959ء میں 10ملین گیلن دھابے جی، دوسرے فیز میں 1971ء میں 77ملین گیلن دھابے جی، تیسرے فیز 1978ء میں 80ملین گیلن دھابے جی، چوتھے فیز میں 1997ء میں 82ملین گیلن دھابے جی، K-2منصوبہ96ملین گیلن 1998ء دھابے جی، K-3منصوبہ124ملین گیلن 2006ء،گھارو سے 29ملین گیلن 2003ء اور حب ڈیم سے 100ملین گیلن 1984ء فراہم کیا جارہا ہے جبکہ 26ملین گیلن پاکستان اسٹیل، 7.5ملین گیلن پورٹ قاسم اتھارٹی اور مجموعی طور پر انڈس سے 49کروڑ 80لاکھ گیلن اور حب ڈیم سےایک معاہدہ کے تحت 10کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے، کراچی کا انڈس سے 1200کیوسک یعنی 65کروڑ 40لاکھ گیلن یومیہ پانی فراہم کے کوٹہ میں 13کروڑ گیلن پانی میں بچ جانے والے پانی کا منصوبہ زیر غورہے۔
کراچی واٹراینڈ سیوریج کارپوریشن کی رپورٹ اور ماہرین کا کہناتھاکہ مجموعی طور پرپانی کی چوری اور لائنوں میں رساؤ کے باعث 30فیصد ضائع ہورہا ہے،لیکن انڈس سے پانی کے کوٹہ میں کمی اور چوری کا سلسلہ جاری ہے۔
جاپان کی تنظیم جائیکاکے پانی سیوریج پر کراچی کا ماسٹر پلان 2007ء کو تیار کیا تھا سندھ حکومت نے اس رپورٹ پر عملدآمد سے صاف انکار کردیا تھا جس ے نتیجے میں 18سال گزر جا نے ے باوجود مکمل خاموشی ہے۔
کراچی کی آبادی کا تیزی سے دباؤ بڑھنے پرتاحال کراچی میں 650ملین گیلن پانی یومیہ کمی ریکارڈموجود ہے،اور ڈیفنس سٹی (فیزنائن)سپرہائی وے، بحریہ ٹاون، فضائیہ ہاوسنگ، ائیرپورٹ سیکورٹی فورس ہاوسنگ پروجیکٹ،نیول ہاوسنگ، ایجوکیشن سٹی، تیسر ٹاون،شاہ لطیف ٹاون، ہاکس بے اسکیم، نجی بلڈرز ہاوسنگ پروجیکٹ، پرئیوایٹ ہاوسنگ سوسائٹیز،کچی آبادیز، گوٹھ آباد،نئے صنعتی زون،نادران بائی پاس سمیت دیگر رہائشی اور تجارتی منصوبہ میں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
انڈس کے مختلف ذرائع سے ملنے والے پانی کینالوں، شائفن،کنڈیوٹ اور کراچی تک پہنچنے والے پمپنگ اسٹیشنوں تک اعداد وشمار میں فرق موجود ہے، ماضی میں کراچی کے ملنے والے کوٹے پر جانچ پٹرتال اور نگرانی سمیت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھا ہےْ
کراچی کو انڈس سے شہر پہنچنے والے پانی میں اعداد ثمار میں نمایاں فرق کا کھوج لگائیں گے اور اپنی رپورٹ میں کینالوں، شائفن، کنڈیوٹ، لائنوں سے چوری ہونے والے پانی کا سدباب بھی کیا جائے گا اوپن ڈیجیٹل میٹرز کی تنصیبات کرنے میں کے جی فیڈر کینال،لنک کینال،گجرو کینال،ہالے جی،گھارو، کنجھر جھیل،کلری فیڈرز اورحب ڈیم لگائیں جانے کا منصوبہ ہے۔
کراچی واٹراینڈ سیوریج کارپوریشن کے ذمہ دار افسران کا کہناتھا کہ ڈیجیٹل کمپیوٹرائز میٹرزلگائنیپر توہ ینے کی ضرورت ہے، اس سے قبل منصوبہ کے ڈائریکٹر شکیل قریشی نے سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے دور2009ء میں کراچی میں 66کروڑ روپے خطیر فنڈز کے54میٹرزکی اسکینڈل میں ملوث تھے لگتا ہے ْ
چوری شدہ میٹرز کو ورلڈ بینک کی آڑ میں لگانے کا منصوبہ ہو، کراچی میں بڑے بدعنوانی میں ملوث شکیل قریشی پر قومی احتساب بیورو کراچی تحقیقات زیر التواء ہے۔

