کراچی کا گندہ پانی اسکینڈل: پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم رہنماؤں پر شہر کی شہ رگ برباد کرنے کا الزام، ذرائع کارپوریشن
لاواث شہر کے منصوبہ پر وفاق کے ساتھ سندھ سرکار کی تاخیری حربہ
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) پاکستان کا معاشی دارالحکومت اپنے ہی گند میں ڈوب گیا۔ روزانہ ساڑھے چار سو ملین گیلن بغیر ٹریٹمنٹ کا سیوریج سمندر میں پھینکا جا رہا ہے۔ ساحلِ سمندر زہریلی نالیوں میں بدل گئے، سمندری حیات تباہ ہو رہی ہے اور شہری خطرناک بیماریوں کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔
منصوبہ 7سے بڑھ کر ،36ارب روپے تک پہنچ گیا وفاق اور سندھ سرکار نے فنڈر جاری نہیں کیا تاخیری حربہ استعمال کرتے رہے،اور 13سال میں منصوبہ مکمل نہ ہوسکا
اس تباہی کے پیچھے دہائیوں پر محیط واٹر بورڈ (موجودہ کارپوریشن) افسران اور پیپلزپارٹی و ایم کیوایم کے طاقتور سیاسی رہنماؤں کی ملی بھگت بتائی جا رہی ہے، جنہوں نے جان بوجھ کر شہر کے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کو کھنڈر بنا ڈالا۔
کراچی کے کبھی عالمی معیار کے پلانٹس
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کراچی کے پاس عالمی معیار کے ٹریٹمنٹ پلانٹس TP-I، TP-II اور TP-III موجود تھے جو لاکھوں گیلن سیوریج صاف کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔اور صاف پانی سمندر میں ڈالا جارہاتھا
آج یہ سب پلانٹس ملبے کا ڈھیر ہیں—وقت نے نہیں بلکہ مفاد پرست سیاسی قوتوں نے انہیں تباہ کیا۔
سیاسی شخصیات کٹہرے میں
نعمت اللہ خان (جماعت اسلامی، 2001-2005): پلانٹس کی بحالی کے لئے فنڈز نہ لا سکے۔عدالتوں نے بھی حکم نامہ جاری کیا
سید مصطفیٰ کمال (ایم کیوایم، 2005-2010): محمودآباد پلانٹ کی سینکڑوں ایکڑ زمین قبضہ مافیا کو دیدی گئی۔ مبصرین اسے “کراچی کے سیوریج نظام کی سب سے بڑی زمین پر ڈاکا” کہتے ہیں۔جس کے نتیجے میں محمودہ اباد ٹرٹمنٹ پلانٹ کا کام بند ہوگیا
شرجیل انعام میمن (پیپلزپارٹی، 2011-2013): S-III منصوبے کے فنڈز ہڑپ کرنے اور کرپٹ کنٹریکٹرز کو تحفظ دینے کے الزامات موجودہے
مراد علی شاہ (وزیراعلیٰ سندھ 2014تا حال): بار بار بحالی کے دعوے لیکن ایک بھی منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔
وسیم اختر (ایم کیوایم، 2016-2020): TP-I اور TP-III کی بحالی کے وعدے، مگر پلانٹس ویران رہے۔ہاتھ کھڑے کردیاتھا
مرتضیٰ وہاب (پیپلزپارٹی، 2022 تا حال): روزانہ “ریکارڈ ترقی” کے دعوے لیکن حقیقت یہ کہ کراچی کے پاس آج زیرو آپریشنل ٹریٹمنٹ پلانٹس ہیں۔ٹرٹمنٹ تھری ماری پور بغیر کسی ٹرٹمنٹ کے 77ملین گیلن سمندر میں ڈالا جارہا ہے،منصوبہ تاخیر کی وجہ ٹھیکدار خاموش ہے ادفسران کی موج لگی ہوئی ہے
وفاقی حکومتیں—چاہے پیپلزپارٹی ہو، ن لیگ یا پی ٹی آئی—سب ناکام رہیں اور کوئی آزاد نگرانی کا نظام نہ بن سکا
ٹیکنو کنسلٹ اور S-III کا ڈھونگ
اربوں روپے کا S-III منصوبہ ٹیکنو کنسلٹ کو دیا گیا کہ پلانٹس بحال ہوں، مگر الٹا سب کچھ اجاڑ دیا گیا۔ مشینری بیچ دی گئی، انفراسٹرکچر اکھاڑ لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے اویس مظفر ٹپی اور ایم کیوایم کے وزراء نے کنٹریکٹ دلوانے میں براہِ راست کردار ادا کیا۔
واٹر بورڈ کے ایک سینئر انجینئر نے انکشاف کیا
“یہ نااہلی نہیں بلکہ ملی بھگت تھی۔ ہر سیاسی باس نے اپنا حصہ لیا۔ کراچی کا مستقبل ٹرکوں کے لوہے کے بھاؤ بیچ دیا گیا۔”
مردہ پلانٹس، زندہ تنخواہیں
ہزاروں ملازمین ان “مردہ” پلانٹس سے آج بھی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ ہارون آباد کا TP-I کبھی فلموں کی شوٹنگ کے لیے مشہور تھا، اب ویران قبرستان ہے۔
سمندر بھی بیمار، شہری بھی بیمار
ماہرینِ حیاتیات کے مطابق کراچی کا ساحل ایشیا کا آلودہ ترین بن چکا ہے۔ مچھلی اور جھینگے ختم ہو رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں پیٹ، جگر اور جلدی امراض کے مریضوں کی بھرمار ہے۔
سول سوسائٹی کا مطالبہ
ماہی گیروں کی تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کے محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ
“یہ غفلت نہیں، سیاسی جرم ہے۔ جب تک بڑے سیاستدانوں کا احتساب نہیں ہوگا کراچی رہنے کے قابل نہیں بنے گا۔”
شہری حلقوں نے S-III منصوبے کا فرانزک آڈٹ، ٹیکنو کنسلٹ کے خلاف مقدمات، اور مصطفیٰ کمال، شرجیل میمن، وسیم اختر، مرتضیٰ وہاب سمیت تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
کراچی کا گندہ پانی اسکینڈل اب شہر کے مستقبل کا سوال بن گیا ہے—کیا کبھی اس جرم کا حساب ہوگا یا یہ شہر ہمیشہ سیاست کی بھینٹ چڑھا رہے گا؟