کراچی واٹر کارپوریشن میں نیا بھونچال: انجینیئرز کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا فیصلہ

نیا بھونچال

درجنوں بڑے عہدے خطرے میں ڈپلومہ بی ٹیک انجینر کی بھر مار؟ پاکستان انجیبئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ کی تعداد 15/20فیصد ہے، سی ای او نے پرفارما جاری کردیا

چیف انجینئر،سپر ٹنڈنٹ،ایگزیکٹو انجینئر،اسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر پر سیاسی بنیادوں تعینات ہے


کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی واٹر کارپوریشن کے نان ٹیکنکل کی تعیناتی کے ادارے میں 80فصید پی ای سی سے رجسٹرڈ نہیں، چھان بین شروع کردی گئی، پانی سیوریج کے بحران کا اصل ذمہ دار بھی نان انجینئرزکو قرار دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر، کئی دہائیوں سے پانی اور سیوریج کے شدید بحران میں جکڑا ہوا ہے ۔ شہری روزانہ پھٹی پائپ لائنوں، اُبلتے گٹروں اور خشک نلکوں سے پریشان ہیں۔

اب ادارے کے اندر ایک اور بھونچال اٹھ کھڑا ہوا ہے جب واٹر کارپوریشن کے سی ای او نے تمام انجینیئرز کی ڈگریوں اور پیشہ ورانہ رجسٹریشن کی جانچ پڑتال کا حکم دے دیا ہے۔ اور ایک پرفارما جاری کردیا ہے جس میں عہدہ کے ساتھ پاکستان انجینئر کونسل کی رجسڑیشن اور تقرری کی تفصیلات فل کرنے کی ہدایت کیا گیاپرفارماکے حکمنامہ No KWSC/DP/DDRH/1973،بتاریخ 12اگست 2025 جاری ہے

کراچی واٹر کارپوریشن میں نیا بھونچال انجینیئرز کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا فیصلہ

نان ٹیکنیکل قیادت اور سوالیہ نشان

ذرائع کے مطابق خود سی ای او کے پاس پاکستان انجینیئرنگ کونسل (پی ای سی) کی رجسٹریشن یا کوئی پروفیشنل سند نہیں، مگر انہوں نے اپنے ماتحت انجینیئرز کی چھان بین کا فیصلہ کر کے نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ عمل شفاف ہوا تو کئی افسران اپنی پوسٹوں سے محروم ہو جائیں گے، مگر خطرہ یہ بھی ہے کہ یہ صرف اندرونی سیاست کا حصہ نہ نکلے۔

کراچی واٹر کارپوریشن میں نیا بھونچال انجینیئرز کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا فیصلہ

کراچی کے پانی و سیوریج کا بحران (اعداد و شمار)

آبادی: 3 کروڑ 50 لاکھ سے زائد
پانی کی طلب: 1,200 MGD
فراہمی (سرکاری دعویٰ): 550–580 MGD
حقیقی فراہمی (ماہرین کے مطابق): 450 MGD سے کم
خسارہ: 650–700 MGD یومیہ
پائپ لائن لیکج و چوری: 30–40%یعنی 26کروڑ گیلن پانی یومیہ ضائع ہورہا ہے،
یومیہ سیوریج اخراج: 450–500 MGD
ٹریٹمنٹ: صرف 50 MGD (10%)، باقی سیدھا سمندر میں۔اس پر ادارے میں منصوبہ بندی کیا اور اس پر سوچا گیا تھا ایک ایسا منصوبہ بن گیا ہے جو 13سال سے نامکمل اور ادرھور ا منصوبہ بن چکا ہے، اداے میں رشوت،کمیشن 45فیصدوصول کیا جارہا ہے، ٹھکیداربھاری رشوت کمیشن دیکر ایمانداری کس طرح کرسکتا ہے اور کام میں دونمبری اور غیر معیاری کے ساتھ افسران کی ملی بھگت سے جعلی بوگس بلنگ کرکے اپنے نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کرتاہے

کراچی واٹر کارپوریشن کے بڑے منصوبے اور ناکامیاں

K-IV منصوبہ: خواب سے حقیقت تک نہ پہنچ سکا

کراچی کے لیے پانی کی قلت ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ K-IV منصوبہ شروع ہوا۔ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ ڈیزائن کی خامیاں، کرپشن اور ناقص منصوبہ بندی نے اسے سب سے بڑی ناکامی بنا دیا۔پہلے منصوبہ پر کام کیے بغیر شہریوں کے 16ارب روپے خرچ کردیاگیاہے اس کی تحقیقات ہونے چاہیے کہ بند منصوبہ پر کراچی کے شہریوں کے فنڈز پر کون کون ملوث ہیں منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا جارہا ، کے فور پر 260ملین گیلن پانی کے ننصوبہ پر 260ارب روپے کس نے پہنچایا عوام کو معلوم ہونا چاہیے

ہائیڈرنٹس، ٹینکر مافیا،سپ سوئل وٹر(بورنگ مافیا)

پانی کے بحران نے ٹینکر مافیا کو جنم دیا۔ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعے شہریوں کا حصہ چوری کیا گیا اور مہنگے داموں بیچا گیا۔ مختلف ادوار میں کارروائیاں ہوئیں مگر مافیا آج بھی مختلف شکلوں میں سرگرم ہے۔،ٹینکروں کی تعداد11200تک پہنچ گئی ہےواٹر کارپوریشن میں رجسٹرڈ ٹینکروں کی تعداد 4510ہے دیگر ٹینکرز پانی کی سپلائی کررہے انتظامیہ پر سوالیہ نشان، ہائنڈرنٹس کے بعد سب سوئل یعنی بورنگ مافیا کاراج ہے جہان وہ لائینوں کا پانی ڈال کر 10ارب روپے کمارہے ہیں واٹر کارپوریش رشوت کمیشن وصول کررہے ہیں ادارے میں ساڑھے پانچ کروڑ روپے جمع کررہے اور افسران کے جیبوں جارہاہے

S-III منصوبہ: سیوریج کا ناکام خواب

کراچی کے سیوریج مسائل حل کرنے کے لیے S-III (Sewerage Improvement Project) شروع کیا گیا تھا، جس پر ابتدائی طور پر 36 ارب روپے سے زائد لاگت کا تخمینہ لگایا گیا۔ منصوبے کا مقصد شہر میں 500 MGD سیوریج کو ٹریٹ کرنا اور سمندر کو آلودگی سے بچانا تھا۔

مگر کئی برس گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔آج بھی شہر کے سیوریج کا 90 فیصد حصہ بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں گر رہا ہے۔
S-III پر لگنے والی اربوں روپے کی خطیر رقم کے باوجود عملی طور پر نہ کوئی ایک بھی ٹریٹمنٹ پلانٹ مکمل ہوا، نہ سیوریج لائنوں کی بحالی۔
یہ منصوبہ کرپشن، نااہلی اور ناقص نگرانی کی مثال بن گیا، جس کے نتیجے میں کراچی کا ساحلی ماحولیاتی نظام شدید تباہی کا شکار ہے۔اور ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلی موسمیات پر بھی سجیدہ نہیں، جانی اورمال کے تلافی نقصانات سے بھی ان پر توسنجیدہ نہیں ہے،دونوں منصوبہ کے کنسلٹنٹس ٹیکنو انٹریشنل ہے،

سیاسی بھرتیاں اور اقربا پروری

پیپلز پارٹی ایم کیو ایم،،واٹر کارپوریشن میں سیاسی بھرتیوں نے ادارے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ سفارشی افراد اور نان ٹیکنیکل اسٹاف میرٹ پر بھرتی ہونے والوں کا حق کھا گئے اور ادارہ محض “سیاسی انعامی نوکریوں” کا مرکز بن کر رہ گیا۔

ماہرین کی رائے

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انجینیئرز کی ڈگریوں کی جانچ واقعی شفاف ہوئی تو یہ ادارے کے لیے ایک اہم سنگ میل ہوگا۔ لیکن خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ قدم صرف مخالف افسران کو نشانہ بنانے کی کوشش نہ ہو

شہریوں کی فریاد


کراچی کے باسی سوال کر رہے ہیں
آخر کب شہر کو پانی کے بحران سے نجات ملے گی؟
کب K-IV اور S-III جیسے منصوبے حقیقت بنیں گے؟
کب ٹینکر مافیا ،سب سوئل بورنگ مافیا اور کرپشن کا خاتمہ ہوگا؟
اور کب واٹر کارپوریشن کو پروفیشنل بنیادوں پر چلایا جائے گا؟

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں