گوٹھ آباد اور کچی آبادی کے نام پر ریوینو کے ساتھ کے ایم سی، کےڈی اے سمیت دیگربلڈرزقبضہ شامل ہیں لینڈ اسسٹنٹ کو پروجیکٹ
میں تبدیل کر کے ایک ریٹائرڈ مختیارکار کو پی ڈی تعینات کر دیا گیا ۔ نہروں، پمپنگ اسٹیشن، فلٹر پلانٹس، پانی و سیوریج اسٹیشنوں
سمیت دیگر تنصیبات کی زمینوں پر قبضہ ہوچکا ہے
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) واٹر کارپوریشن نے محکمہ لینڈ اسسٹنٹ کو بطور پروجیکٹ بنا دیا ہے، اور ایک ریٹائرڈ مختیارکار کو پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کردیا ہے۔ یوسف عباسی ریٹائرڈ مختیارکار اور ایڈیشنل ریونیو افسر تھے ان کو بطور پروجیکٹ ڈائریکٹر لینڈ اسسٹنٹ کا چارج دیدیا گیا ہے۔
اس سے قبل جنید قریشی تعینات تھے وہ زمینوں کے کاغذات ریونیو بورڈ سے حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے، ان کی جگہ ایک ریٹائرڈ ریونیو افسر کو تعینات کیا گیا ہے لیکن ان کے بھی ناکام ہونے کا خدشہ ہے ۔
ٹیکنو انٹریشنل کو زمینوں کا ریکارڈ جمع کرنے کا ٹاسک دیاگیا فنڈز کے مسلہ پر تنازعہ پیدا ہونے کی وجہ رپورٹ اور کاغذات جمع نہیں کیا ۔ 20 سال سے محکمے کے قیام کے باوجود واٹر کارپوریشن کی زمینوں کا ریکارڈ، ملکیت کے کاغذات نا مکمل ہیں یا ارادی طور پر نامکمل رکھا گیا کیونکہ زمینوں کے ہیر پھیر میں بہت پیسہ ہے ۔
مبینہ طور پر 37 ہزار ایکٹر اراضی میں 40 فیصد زمینوں پر تاحال قبضہ ہو چکا ہے جن کی مالیت اربوں روپے بتایا حاتاہے اور 70 فیصد زمینوں کے کاغذات بھی نامکمل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ واٹر کارپوریشن کی زمینوں پر قبضہ کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ( کےڈی اے ) ، بلدیہ عظمی کراچی ( کے ایم سی ) اور بورڈ آف ریوینو کے ساتھ ملی بھگت سے گوٹھ آباد اور کچی آبادیوں نے قبضہ رکھا ہے۔ اور پانی کی لائنوں کے ساتھ اہم تنصیبات کی زمین بھی شامل ہیں ۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا قیام 1996ء میں آزاد و خود مختار ادارے کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل 1951ء میں جوائنٹ واٹر کمیشن، 1957 میں کےڈی اے کی نگرانی اور 1983ء میں کے ایم سی کے کنٹرول میں دیدیا گیا تھا۔
واٹر کارپوریشن الگ ادارہ بنانے کے باوجود اس کو زمینوں کے ابتدائی کاغذات کے علاوہ الاٹمنٹ و دیگر اصل کاغذات نہیں دیئے گئے اور 31 سال گزرنے کے باوجود زمینوں کا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے اور مکروہ حرکت میں واٹر کارپوریشن کا عملہ پوری طرح ملوث ہے (کیونکہ ان کی مرضی کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا)، جس کے نتیجے میں بورڈ آف ریوینو سمیت دیگر اداروں کا واٹر کارپوریشن کی زمینوں پر قبضے کا گھناؤنا کاروبار اپنے عروج پر ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ اور سابق چیف
ایگزیکٹیو آفیسر نے جی آئی ایس کی مدد سے
زمینوں کا ریکارڈ مرتب کرنا تھا تاہم ذاتی مفادات
کی وجہ سے زمینوں کا ریکارڈ مرتب نہ ہوسکا۔
موجودہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر احمد علی
صدیقی نے جی آئی ایس کی مدد سے زمینوں پر
قابضین کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی تھی
تاہم 20 سال سے قائم جی آئی ایس محکمہ
زمینوں کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہو گیا ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک نجی ادارے کی مشاورت سے زمینوں کے ریکارڈ کے ساتھ ان کی خدمات حاصل کرنےجا رہا ہے۔ کراچی واٹر کارپوریشن کے ریٹائرڈ افسران نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن (کے ڈبلیو ایس بی) کی قیمتی زمینیں، جو پانی کی تنصیبات، پائپ لائنز، پمپنگ اسٹیشنز، نہروں اور ٹریٹمنٹ پلانٹس کے لیے مختص تھیں، یا تو غیر قانونی طور پر فروخت کر دی گئیں یا قبضہ مافیا نے ہتھیا لی ہیں اور یہ سب با اثر افسران کی ملی بھگت سے ہوا ہے جنہوں نے ملی بھگت سے ریونیو بورڈ سے زمینوں کے کاغذات ہی نہیں لیئے۔
واٹر کارپوریشن کے ذرائع کے مطابق شہر کے کئی علاقوں میں گزشتہ سات برسوں کے دوران قبضہ مافیا نے زمینوں پر ڈیرے ڈالے اور اس گھناؤنے کھیل میں کم از کم 13 ایکزیکٹیو انجینئرز شریک ہیں، جن میں گھارو، حب NEK (E&M)، NEK KDC-I، NEK KDC-II، ڈملوٹی، HTM، CTM، FTM، PP، CPS، TP-I اور TP-II ڈویژن شامل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ زمینوں پر کچی آبادیاں اور رہائشی پلاٹس بن گئے ہیں، جن میں TP-I ہارون آباد، TP-II محمود آباد، TP-II ماری پور، منگھوپیر، پپری، گھارو، دھابیجی، حب کینال، سپر ہائی وے، گڈاپ، ملیر، شاہ فیصل، بن قاسم، کورنگی، نیو کراچی، سائٹ، پاک کالونی، بلدیہ، اورنگی اور قصبہ کالونی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق، TP-IV (کورنگی کریک) کی زمین پر منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی زمین الاٹ کردی گئی ہ ریوینو بورڈ 150 ایکٹر اراضی ہڑپ کر گیا ہے،اس پر رہائشی پلاٹس بنا دیئے گئے ہیں۔ سی او ڈی کی 25 ایکڑ زمین پر گھر تعمیر ہو گئے ہیں ۔ ریوینو بورڈ 150 ایکٹر اراضی ہڑپ کر گیا ہے،اس پر رہائشی پلاٹس بنا دیئے گئے ہیں۔
نیشنل اسٹیڈیم کے قریب زمینیں پرائیویٹ بلڈرز کو دے دی گئیں، جبکہ گلشن اقبال، گلستان جوہر، 78 ایکٹر کے ڈی اے ہاؤسنگ سوسائٹی اور اسکیم 33 کی زمین بھی اصل مقصد کے بجائے دیگر کاموں میں استعمال ہو رہی ہے ۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کیں اور سی او ڈی کی زمین پر بنے 14 بنگلوں کو سیل کیا، مگر حیران کن طور پر ایک سیل شدہ بنگلہ دوبارہ نامعلوم افراد نے یہ کہہ کر سیل اوپن کی کہ ہماری ضرورت کی کچھ اشیاء اندر ہیں ان کو نکالنے کی اجازت لے لی ہے لیکن آج تک ان کا قبضہ ہے۔

ٹینس کورٹ سی اوڈی میں غیر قانونی بنگلو
اس معاملے میں کارپوریشن کے افسران نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ان گھروں میں آباد ہونے پر انتظامیہ کی مکمل خاموشی کسی اور بات کی نشاندھی کرتی ہے۔ سی او ڈی فلٹر پلانٹ کا رقبہ 100 ایکٹر پر مشتمل ہے جن میں تقریبا 2 ایکٹر اراضی پر قبضہ ہے، 38 ایکٹر اراضی پر تعمیرات اور پلانٹ کی عمارت موجود ہے اور 60 ایکٹر اراضی خالی ہے۔ سب سے قیمتی اراضی دیہہ اکاواڑئی گریٹر کراچی اسکیم ون کے نام پر قائم کیا گیا ہے ۔
ایل ایس آر 16.2 ایکٹر، ایچ ایس آر 21.35 ایکٹر، سی او ڈی فلٹر پلانٹ 95.607 ایکٹر، پائپ فیکٹری 35 ایکٹر ہے اور مجموعی اراضی 185 ایکٹر پر مشتمل ہیں، ریکارڈز آف رائٹس میں اراضی کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ کارپوریشن کے افسران اور ایمپلائیز کی پرائیویٹ سوسائٹیز کی زمینوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔
گلستان جوہر بلاک ون میں موجود ملازمین نے کے ڈی اے کے جعلی کاغذات بنوا کر لیز حاصل کر رکھی ہے ان میں ریٹائرڈ افسر آصف قادری، ہائیڈرنٹ سیل کے انچارج صدیق تنیو بھی شامل ہیں۔ دو ایکٹر اراضی پر کئی مکانات کی جعلی کاغذات کے ڈی اے نے الاٹ کر رکھی ہے۔

منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن کے 768 ایکٹر اراضی میں کئی گوٹھ بن چکے ہیں کئی کچی آبادیوں نے لیز حاصل کر رکھی ہے غرض یہ کہ واٹر کارپوریشن کے مرکزی دفتر کارساز کی زمین کے کے ایم سی نے نامکمل کاغذات دیئے تھے اس کے اصل کاغذات موجود ہی نہیں ہیں۔

صدیق تنیو ہائیڈرنٹس سیل انچارج