نان ٹیکنکل سی ای او احمد علی صدیقی کی تعیناتی

احمد علی صدیقی کی تعیناتی

واٹر کارپوریشن میں نان ٹیکنکل سی ای او احمد علی صدیقی کی تعیناتی سے ادارے میں بےچینی پیدا ہو گئی۔

چند ریٹائرڈ کنٹریکٹ والے اور حاضر افسران کے کام کرنے سے انکار پر ادارے میں پانچ ٹیکنکل کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

کمیٹی کے کام کی نوعیت تخمینہ لگانا، کام کی جانچ پڑتال، کام کی انفارمیشن ٹکنالونی سے نگرانی، بجٹ، آڈٹ کے

ساتھ ریکارڈ مرتب کرنا شامل ہیں۔ کمیٹی کا قیام سی او او پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، کارپوریشن ذرائع

کراچی ( رپورٹ۔اسلم شاہ ) نان ٹیکنکل سی ای او احمد علی صدیقی کی تعیناتی پر، بعض کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ریٹائرڈ و حاضر افسران نے کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ٹیکنکل افسرن کی تقرری میں تاخیر پر ادارے میں پانچ مختلف ٹیکنکل کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،جو سی ای او کو براہ راست جوابدہ ہوں گے۔ سی ای او کی ہدایت پر ڈائریکٹر پرسنل غضنفر علی خان کے دستخط سے ایک حکمنامہ KW&SC/DP/DDHR/COMM77/1865 بتاریخ یکم اگست 2025ء کو جاری کیا گیا ہے، جس کے تحت پانچ کمیٹیاں کا قیام عمل لایا گیا ہے ان میں ادارہ میں کام کی نوعیت کا تخمینہ لگانا، کام کی جانچ پڑتال، کام کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے نگرانی،بجٹ،آڈٹ کے ساتھ ریکارڈ مرتب کرنا کے علاوہ فیری فکیشن شامل ہیں۔

یہ سب ایکٹ کے تحت سی او او ٹیکنیکل افسر کی موجودگی میں کمیٹی کے قیام پر ادارے کے افسران حیرت ذدہ ہیں،جس کے نتیجے میں نظام کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ نان ٹیکنیکل سی ای او احمد علی صدیقی کے چارج سنبھالتے ہی ایک نئے بحران کا خدشہ ہے۔

اس عمل سے ادارے میں بدانتظامی عروج پر پہنچ گئی،جبکہ ٹیکنیکل قیادت کا شدید فقدان، اہم عہدے خالی، پانی و نکاسی کا نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا جس سے کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، ایسے نازک وقت میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ( کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ) میں شدید انتظامی بحران جنم لے چکا ہے اور ان سب معاملات کی ذمہ دار سندھ حکومت اور میئر کراچی ہیں جنہیں کراچی کے عوام کی فکر ہے نہ ان کی مشکلات کا احساس ہے۔

نو تعینات سی ای او جناب علی احمد صدیقی نے عہدہ سنبھالتے ہی فوری اقدامات کا آغاز تو کیا ہے، لیکن انہیں ایک بکھری ہوئی اور غیرفعال بیوروکریسی کا سامنا ہے جہاں ٹیکنیکی قیادت کا خلا شدت اختیار کر چکا ہے۔

کارپوریشن ذرائع کے مطابق سی ای او نے سب سے پہلے جس معاملے پر توجہ دی، وہ ایک قابل ٹیکنیکل اسسٹنٹ کی فوری تقرری تھی جس میں حسب روایت سندھ حکومت کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کرنا شامل ہیں جس کی وجہ سے پانچ مختلف ٹیکنیکل کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ایگزیکٹیو انجینئر، سپریٹنڈنٹ انجینئر، چیف انجینئر سمیت اعلی افسران گمراہ نہ کرسکیں۔

لیکن صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی سینئر افسر یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، نتیجتاً ایم ڈی نے مجبوری میں ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں ایک افسر سیف الدین اعوان بھی شامل ہیں جو پہلے متعدد بار نہ صرف انکار کر چکے ہیں بلکہ ترقی لینے سے بھی صاف انکار کر دیا تھا۔ تاہم، ایک بااثر شخصیت کی مداخلت پر انہیں زبردستی گریڈ 20 میں ترقی دے دی گئی۔

کارپوریشن کے مطابق کمیٹی میں کام کی لاگت کے نتائج اخذ کرنا کے لئے چیف انجینئر سیف الدین اعوان،سپریٹنڈنٹ انجینئر وسیم شیخ، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر مرزا ظفر بیگ شامل ہیں۔

کام کے اصل نرخ کا تعین کے لئے اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر محمد نعیم اور اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر کاشف ملک،کام کے موقع کا جائزہ و فزیکل معائنہ اور تصدیق کرنے کے لئے دو یا تین رکنی کمیتی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں من پسند افسران کو موقع پر نامزد کیا جائے گا کیونکہ یہ مالی منفعت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

کام کی نوعیت، ٹھیکیداروں اور کارپوریشن کی ٹیم کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے نگرانی کرنا اور سوشل میڈیا کی سروس فراہم کرنا شامل ہیں۔ کمیٹی اکاونٹ آفیسر ندیم حسینی بجٹ کے ساتھ کام کا ریکارڈ مرتب کرناکا حدف دیا گیا ہیں اس کے علاوہ کمیٹی ٹھیکیداروں کے بلوں کے معاملات کو بھی دیکھے گی۔ اس کمیٹی کو بوگس فائلوں کی جانچ، ٹھیکیداروں کے خلاف شکایات کی تحقیقات اور دیگر اہم ٹیکنیکی امور سونپے گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے ارکان نہ صرف ٹیکنیکی مہارت سے محروم ہیں بلکہ ان کے پاس اتنے حساس اور پیچیدہ معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے ۔ دوسری جانب، سی ای او علی احمد صدیقی نے مختلف نجی کنسلٹنگ فرمز سے بھی رابطے شروع کر دیے ہیں تاکہ ادارے کے جاری منصوبوں اور پرانی فائلوں کا آزادانہ آڈٹ کرایا جا سکے ۔

یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ادارے کے اندرونی نظام پر ان کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے اور انہوں نے افسران پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ لچسپ امر یہ کہ اس سارے عمل میں چیف آپریٹنگ آفیسر ( سی او او ) کا کردار مکمل طور پر غیر فعال نظر آ رہا ہے، حالانکہ یہ عہدہ ورلڈ بینک کی سفارش پر قائم کیا گیا تھا تاکہ ایم ڈی کو ٹیکنیکی معاملات میں مکمل معاونت فراہم کی جا سکے۔ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ سی او او کی تمام تر توجہ اس وقت صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ خود سی ای او کی کرسی تک کیسے پہنچ سکیں ۔

ادارے کے اندر طاقت کی رسہ کشی اور ذاتی مفادات کے اس کھیل نے کراچی کے پانی اور نکاسی آب کو تباہ کر دیا ہے، اگر فوری طور پر ٹیکنیکی ماہرین کو آگے لا کر اصلاحات کا آغاز نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ شہر کا انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر بیٹھ جائے گا جس کا خمیازہ عوام کو پانی کی قلت اور نکاسی آب کی تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنیکل کمیٹی کے قیام سے کارپاریشن میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے امکانات کم ہیں ۔

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں