کراچی S-III سیوریج منصوبہ: فنڈز کی کمی، تاخیر اور ماحولیاتی بحران

سیوریج منصوبہ

کراچی S-III سیوریج منصوبہ تاخیر کا شکار، فنڈز کی کمی، کرپشن اور

بدانتظامی سے ماحولیاتی آلودگی اور صنعتی برآمدات خطرے میں ہیں۔

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) سیوریج منصوبہ، جسے اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ کہا جارہا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نا اہلی، عدم دلچسپی،غفلت اور بدانتظامی کے باعث S-III تعطل کا شکار۔ واٹر کارپوریشن کا بڑا منصوبہ گذشتہ 8 سال میں مکمل نہ ہوسکا، طاقتور ٹھیکیدار نے فنڈز کی عدم دستیابی پر منصوبہ بند کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

منصوبے کی تکمیل پر 9 ارب روپے خرچ ہوں گے،جبکہ سندھ حکومت نے رواں مالی سال میں اسے مکمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چیئرمین بلال بھٹو T-I ہارون آباد، T-III ماری پور کا افتتاح کریں گے۔ منصوبے پر صرف 50 کروڑ روپے فنڈز مختص کیا گیا ہے۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر نظام الدین شیخ کا کہنا ہے کہ فنڈز کا اجراء جلد بھی ہوجائے تو بھی منصوبہ چند ماہ میں مکمل نہیں ہوسکتا۔ TP-1 ہارون آباد شیر شاہ، TP-III میں ٹریٹمنٹ پلانٹس چلانے پر 24 ارب خرچ ہوں گے جبکہ لیاری ندی کے کنڈیوٹ کا منصوبہ مکمل ہوچکا ہے۔

حالیہ بارشوں کے دوران بعض حصے متاثر ہوئے تھے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بروقت فنڈز جاری نہ ہونے، ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث منصوبے کی لاگت میں 100 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ منصوبے پر اب تک 13 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں جبکہ ٹھیکے داروں کے واجبات 70 کروڑ روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

صرف لیاری ندی میں کنڈیو لائن کی تکمیل ہو چکی ہے، ان لائن کو ٹریٹمنٹ پلانٹس سے ملانا ہے۔ ٹھیکے دار منصوبہ حوالے کرنے کو تیار ہیں، ان کے سیکیورٹی ڈپازٹ بھی واپس کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے، TP-III ماری پور میں 77 ملین گیلن گندے پانی کو ٹریٹمنٹ کیا جا رہا ہے، جس کا افتتاح 22 جولائی 2018ء کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیا تھا۔ان کی دیکھ بھال پر اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں۔

سیوریج منصوبہ نئے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر اور بھاری میشنری کی تنصیبات فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث روکا گیا ہے۔ اس ضمن میں پروجیکٹ ڈائریکٹر نظام الدین شیخ نے حکومت سے فوری طور پر پانچ ارب روپے فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت نے 3 ارب 99 کروڑ 10 لاکھ روپے میں ادائیگیکے بجائے، اب تک تین ارب 12کروڑ 90 لاکھ روپے ادا کیے ہیں جبکہ بقایاجات میں سے 86 کروڑ 20 لاکھ روپے میں 51 کروڑ 76 لاکھ روپے کی ادائیگی کا خط بھی ارسال کردیا ہے۔

ماری پور ٹریٹمنٹ پلانٹ TP-III یہاں 77 ملین گیلن ٹریٹمنٹ کے باوجود 150 ملین گیلن کا نیا منصوبہ بھی مکمل نہ ہوسکا جبکہ ٹریٹمنٹ پلانٹ TP-II محمود آباد کی زمینوں پر غیر قانونی قبضہ ختم نہ کرانے کی وجہ سے تعمیرات اور ٹریٹمنٹ کی بحالی کا کام بھی تعطل کا شکار ہے۔ TP-I اور TP-III کے ساتھ ساتھ لیاری ندی پر 21 ارب 31 کروڑ 7لاکھ 97 ہزار روپے کا مجموعی بجٹ مختص کیا گیا ہے جس میں لیاری ندی میں 8 کنڈیوٹ پیکج بھی شامل ہیں۔ اس کی لمبائی 32۔33 کلومیٹر بھی تکمیل ہے۔

موسمی تبدیلی کے بعد کراچی کے ساحلی علاقے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ سمندر کا 142 کلومیٹر کا رقبہ بھی آلودہ کر دیا گیا ہے جس سے سمندری حیاتیات(سی فوڈ) بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی میں تین ٹریٹمنٹ پلانٹس موجود ہیں، سیوریج کے چھ پمپنگ اسٹیشن موجود ہیں، 32 لائٹ پمپنگ اسٹیشن سیوریج کے موجود ہیں جبکہ سیوریج کا مجموعی طور پر 70۔56 کلومیٹر کا سسٹم یا نظام یہ گندا سیوریج کا آلودہ اور کیمیائی پانی کی چھوٹے بڑے نالوں اور ندی کے ذریعے سپلائی جاری ہے۔

سائٹ، نارتھ کراچی، فیڈریل بی ایریا،لانڈھی، کورنگی اور سائٹ ٹو سپرہائی ہائی وے پر چھ ٹریٹمنٹ پلانٹ میں 12 ملین گیلن یومیہ کے حساب سے 1590 ملین روپے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھامنصوبہ بند کردیا گیا۔ 35 انڈسٹریل زون میں ٹریٹمنٹ کے بغیر گندا پانی زیر زمین اور دریا کے ساتھ سمندر میں جارہا ہے، جہاں سمندری حیاتیات کے ساتھ ماحولیات بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

سیوریج منصوبے پر 75 فیصد رقم وفاقی حکومت اور 25فیصد رقم صوبائی حکومت کو لگانا تھی لیکن اس پر اب تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ منصوبے کے تحت TP-I ہارون آباد سائٹ اور TP-III ماری پور ہاکس بے کی تعمیراتی اخراجات میں لیاری ندی پر 21 ارب 31 کروڑ 7 لاکھ 97 ہزار روپے کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔ لیاری ندی میں 8 کنڈیوٹ پیکج میں شامل ہیں اس کی لمبائی 33.32 کلومیٹر، جبکہ پاک اوسس انڈسٹری لیمیٹڈ کنٹریکٹر ہے۔

سیوریج کی بحالی کے منصوبے پر ورلڈ بینک 14.80 ارب روپے کراچی کے مختلف علاقوں میں خرچ کرے گی جبکہ سندھ حکومت کراچی کے سیوریج کی بحالی پر 2.60 ارب روپے سالانہ ترقیاتی فنڈز سے خرچ کرے گی۔

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی نااہلی،بدانتظامی اور کرپشن کے باعث کراچی کے بیشتر صنعتیں بند ہو گئی ہیں جبکہ ٹریٹمنٹ کے بغیر اشیاء کی برآمدات خطرے میں پڑ گئی ہے۔

کراچی کے چھ صنعتی زون میں کمبائن انفرالیٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ(CETP) کا منصوبہ بند کردیا گی۔ منصوبے میں تاخیرکے باعث سو فیصد اضافہ کے ساتھ لاگت 34 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس بارے میں چھ کے بجائے آٹھ مقامات پر زمین کی الاٹمنٹ اور اس کے دیگر رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں۔ منصوبے کے تحت 2017ء میں آغاز ہوکر 2019 تا 2020ء میں تکمیل ہو جانا تھا لیکن افسوس کہ منصوبے کا 2025ء میں بھی آغاز نہ ہو سکا اور یہ بند ہوگیا۔

منصوبے پر 67بفیصد سندھ حکومت اور 33 فیصد وفاقی حکومت کی وزرات کامرس کو ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈز کے ذریعے ادا کرنے تھے،جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) نے مائی کلاچی روڈ، سولجر بازار، نہر خیام، ریلوے لائن نالے کے قریب ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی لگانے کا وعدہ کیا تھا۔

سندھ حکومت کراچی میں سب سے سنگین صورتحال کے باوجود اس منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیری حربہ استعمال کرکے سیوریج منصوبہ بند کردیا گیا جو سوالیہ نشان ہے کہ کیوں سندھ کو کرااچی سے کیا دشمنی ہے۔ بیرون ملک برآمدات کو فروغ دینے پر ہر شعبہ جات میں ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے پر زور دیا جاتا ہے۔

لیکن کراچی کے سیوریج سسٹم کی بہتری اور بحالی پر 70 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ کراچی کے سیوریج کا بڑا منصوبہ ایس تھری کا ایک یونٹ TP-IV کورنگی کی تعمیرات اب پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ یونٹ کے ذریعے کی جائے گی۔ K-4 منصوبے کے 40 میگاواٹ بجلی کا منصوبہ بھی سندھ کی پی پی پی یونٹ کر رہی ہے۔

جبکہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کی یعنی ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیری لاگت کا تخمینہ 34 ارب روپے اور ملیر ندی میں کنڈیو لائن کی تعمیرات کے دوسرے حصے کی تعمیرات کا اندازہ 25 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

ملیرندی پر 5 ٹریک سیور کنڈیوٹ کے پروجیکٹ میں 22.74 کلومیٹر لمبائی ہے۔

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں