واٹر کارپوریشن میں اسداللہ خان کی متنازعہ تقرری

اسداللہ خان

اس سے قبل ورلڈ بینک نے واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے سی ای او کے طور پر اسداللہ خان کے

نام کو ان کی کارکردگی کے باعث مسترد کر دیا تھا

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن (کے ڈبلیو ایس سی) میں حالیہ بورڈ اجلاس کے دوران خفیہ طور پر ایجنڈے میں شامل کی گئی ایک شق کے تحت اسداللہ خان کی بطور چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او) کی توسیع منظور کر لی گئی۔ اس فیصلے نے نہ صرف ادارے کے اندر بلکہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں بھی شدید سوالات کو جنم دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس سے قبل ورلڈ بینک نے واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے سی ای او کے طور پر اسداللہ خان کے نام کو ان کی کارکردگی کے باعث مسترد کر دیا تھا اور حکومت سندھ کو باقاعدہ خط لکھ کر احمد علی صدیقی کی تقرری کی سفارش کی تھی۔

اسداللہ خان

علاوہ ازیں حکومت سندھ نے ورلڈ بینک کی اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا۔ تاہم اس وقت ہی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سندھ حکومت کسی نہ کسی صورت میں اسداللہ خان کو ادارے میں برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ان کی تعیناتی پر سوالات اٹھے ہوں۔ اپوزیشن جماعتیں اور حتیٰ کہ بعض حکومتی اراکین بھی کئی بار اسمبلی اور میڈیا میں یہ نشاندہی کر چکے ہیں کہ کراچی کے بگڑتے ہوئے پانی اور سیوریج کے نظام کے براہ راست ذمہ دار یہی افسر ہیں۔

ایم کیو ایم کے علی خورشید کی سندھ اسمبلی میں کی جانے والی تقریر، جس میں انہوں نے اسداللہ خان کو ’’ناکام افسر‘‘ قرار دیا تھا، آج بھی عوامی یادداشت کا حصہ ہے۔

باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اسداللہ خان اپنے دورِ ایم ڈی میں بھی کوئی خاطر خواہ خدمات انجام نہ دے سکے۔ ادارہ بدانتظامی اور بدحالی کا شکار رہا۔ بعد ازاں مختلف ادوار میں انہوں نے بارہا سی ای او بننے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے سیاسی روابط کے ذریعے ادارے میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔

لہذا اب ایک بار پھر بورڈ کے اجلاس میں انہیں سی او او کے طور پر توسیع مل جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر بلدیات کی تبدیلی تو عمل میں آ گئی، مگر وہی پرانے افسران جو کراچی کے عوام کو پانی کے لیے ترساتے اور گندگی میں ڈبوتے رہے، آج بھی بدستور مزے کر رہے ہیں۔ اسداللہ خان کی دوبارہ توسیع سے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ سندھ حکومت محض اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے مسائل حل کرنے کے بجائے مخصوص شخصیات کو نوازنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

کراچی کے عوام کا سوال یہ ہے کہ اگر ایک ایسا افسر جسے عالمی ادارے نے مسترد کر دیا ہو، اور جس کے دور میں نہ کوئی بہتری آئی ہو نہ کوئی نمایاں منصوبہ مکمل ہوا ہو، آج بھی واٹر کارپوریشن میں برقرار ہے، تو پھر شہر قائد کے پانی اور سیوریج کے مسائل کا حل کون تلاش کرے گا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک سیاسی دباؤ اور اقربا پروری کے بجائے میرٹ پر فیصلے نہیں کیے جاتے، کراچی کے شہریوں کو صاف پانی اور بہتر سیوریج نظام محض خواب ہی رہے گا۔ متنازعہ، کارکردگی پر سنگین سوالات جنم لے رہا ہے

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں