بدعنوان افسران کی من مانی، عیاشیاں، کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی افسران نے کراچی کو محتاج کر دیا
قرض کے پیسوں سے نہ کا پانی کا مسئلہ حل ہوا
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) جرمن کنسلٹنٹ(جی ایف اے) کمپنی نے اپنی ادھوری رپورٹ جمع کرادی۔کراچی کے ٹیکس نہ دینے اور پانی چوری کا سروے نہ ہوسکا۔
عالمی بینک نے سروے کے لئے خطیر رقم رکھی تھی،انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علموں کو اسمارٹ فون، ڈیجیٹل ایکویپمنٹ کے ساتھ سروے پر معاوضہ 100 ڈالر(امریکی) یومیہ ادائیگی کی جانی تھی۔
کراچی میں پانی کے سروے کے ساتھ ٹیکس ادا نہ کرنے والے علاقوں پر کام مکمل کرنا، سروے اور پانی چوری کرنے والے علاقوں کو ریڈ مارک لگانا تھا۔جرمن کمپنی کے کراچی میں موجود این ای سی معاونت کررہی تھی۔
ورلڈ بینک کی سفارش پر کمپنی کو دعوت دی گئی تھی اس سلسلے میں ایک معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔ کراچی کے انفراسٹرکچر ریفارمز 23 اگست 2023ء سے 23اگست 2025ء تک اپنی رپورٹ مرتب کریں گے۔
تاہم انہیں 15ماہ لگ گئے لیکن واٹر کارپوریشن اور سندھ حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے کمپنی اپنی ادھوی رپورٹ مرتب کرکے چلی گئی۔ ہمبرگ جرمنی کی کمپنی جی ایف اے کو ایک معاہدہ کے تحت 320 ملین یورو یعنی ایک ارب 40 کروڑ روپے خرچ کرنے تھے، اس میں YEN YENEN ٹیم لیڈر جی ایف اے، ڈاکٹر راحت سنکدر نیویارک امریکہ،MISS CATARINA،کمپنی کے فنانس ایکسپرٹ SUDOK، GIE برانڈنگ ایکسپرنیدر لینڈ تھے ان کی تقرری کی تھی،مقامی این ای سی کے فروز شاہ، ایوب شیخ اور دیگر افراد شامل تھے، جس میں ہیومین رسسورس مینجمنٹ کا ادارہ بہتر کیا جائے گا۔
تمام محکموں کے کمیونیکیشن کے نظام میں بہتری لانا تھی،کسٹمر سروس اور عام صارفین کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا تھا، آمدن کو بڑھانا، اس کے ٹیکس میں اضافہ کرنا، مالیاتی امور میں شفافیت،بدعنوانی سے پاک کرنا شامل تھا۔
رپورٹ میں تاخیر کی وجہ کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی اور واٹر کارپوریشن کے مابین چپقلس تھی۔ ریکارڈ دینے میں تاخیر اور درست معلومات کی جانچ پڑتال میں وقت ضائع ہونا شامل تھا۔جرمن کمپنی سیم سی آئی ایس کسٹمر سروے نہ کر سکی، خاص طور پر کچی آبادیوں، گوٹھ کے علاوہ مضافاتی آبادیاں شامل تھیں۔
اس کام میں کسٹمر سروس کی سروس کو بہتر بنانا، ڈیجٹیل اور سوشل میڈیا کو بہتر بنانا کے ساتھ ضرورت کے مطابق ملازمین کا سروے، تربیت، اور ان کا معیار عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق بنانے کا ہدف تھا۔
پروجیکٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جرمن کمپنی کو کام میں رکاوٹ بننے والے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر شکیل قریشی، اور پرائیویٹ شخص بلال ظفر، منظور سیال، محمد آصف شامل ہیں۔
یہ شخص بلال ظفر سسٹم کے نام پر جرمن کمپنی سے ہی 50 فیصد براہ رشوت کمیشن مانگ لی تھی جس کی رپورٹ بھی کمپنی نے کر دی تھی۔






مبینہ طور پر سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر، ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر نے بظاہر مکمل خاموشی اختیار کر کے کمپنی کے کام میں رکاوٹ بننا شروع کردیا تھا تاکہ جرمن کمپنی کام نہ کر سکے اور ان دھندے چلتے رہیں۔
ایک افسر کا کہنا ہے کہ جرمن کمپنی نے بڑی مشکل سے،ادارے کے بغیر تعاون کے تمام رپورٹ مرتب کی لیکن معاوضہ کی ادائیگی کرنے کے بجائے پروجیکٹ ڈائریکٹر عثمان معظم نے رشوت کمیشن مانگا اور اس کے بغیر ادائیگی سے صاف انکار کردیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جرمن کمپنی نے معاوضے اپنی درخواست ورلڈ بینک سے کردی ہے اور استدعا کی ہے کہ وہ فنڈز روک کر ان کے واجبات واجبات کی ادائیگی کریں۔
یہ بدعنوان سسٹم کے تحت رشوت کمیشن وصول کرنا چاہتے ہیں جرمن کمپنی نے اپنی رپورٹ کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی، سندھ حکومت ا ور ورلڈ بینک کو جمع کرا دی ہے تاہم موجودہ پروجیکٹ ڈائریکٹر عثمان معظم نے رپورٹ پر بغیر رشوت اور کمیشن کے عملدرآمد سے صاف انکار کردیا ہے۔
جرمن کمپنی کو ورلڈ بینک نے رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کرادی ہے۔ کراچی واٹر سیوریج سروسز امپرومنٹ پروجیکٹ میں پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تبدیلی سے عالمی مالیاتی اداروں کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جس کے جلد خود مختار ہونے کے بعد مالی طور پر محتاجی کا امکان ہے اور ترقیاتی کام کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز اور سرمایہ کاری کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔
ایسے موقع پر سابق چیف سیکریٹری سندھ ڈاکٹر سہیل راجپوت کے دستخط سے خط نمبر NO.SO1(SGA&CD)-3/14/2016 بتاریخ 30 اپریل 2023ء کو محمد رفیق قریشی گریڈ 19 ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر فنانس کا تبادلہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی میں کردیا ہے ۔
ورلڈ بینک کی سرمایہ کاری 140ملین ڈالر یعنی 40 ارب 20 کروڑ روپے خرچ،پروجیکٹ میں شامل، پانی کا اہم منصوبہ K-4 پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد شہر میں فراہمی آب کا نظام پروجیکٹ شامل ہے۔ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کا منصوبہ، صنعتی زون میں ٹریٹمنٹ کا نظام واضح کرنا شامل ہے۔
کراچی کے ساڑھے تین کروڑ شہریوں کو ورلڈ بینک کا 342 ارب روپے کا قرض دار بنا دیا۔ اب یہ قرضہ اتارنے کے لیئے سندھ سرکار اور کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی کے بدعنوان سسٹم کا نظام چلانے والے افسران کراچی کے شہریوں پر 40 سال تک ٹیکس نافذ کریں گے اور اس رقم سے خود عیش کریں گے۔
قرضے کے 50 فیصد یعنی دو سو ارب روپے تاحال خرچ ہو چکے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہاں خرچ ہوئے ہیں۔ قرضے سے نہ کراچی کے پانی کا مسئلہ حل ہوا۔
نہ کراچی کے تباہ حال سیوریج لائن کو درست کیا گیا، نہ بارشوں کے دوران سیلابی ریلے سے جان چھوٹی، نہ واٹر کارپوریشن کی حالت بہتر ہوئی، نہ اس کا انفرااسٹکچر بہتر ہوا ہے اور نہ کسی قسم کا ریفارمز ادارے میں کیا گیا ہے۔
کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی شکیل قریشی نے بتایا کہ جرمن کمپنی کی رپورٹ پر عملدرآمد کے لئے دو الگ الگ کمیٹی بن گئی ہے۔
ایک کا پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی اور دوسرا چیف ایگزیکٹو افیسر واٹر کارپوریشن احمد علی صدیقی سربراہ ہوں گے اس پر تقریبا” ایک ارب روپے خرچ ہوں گے۔