کراچی کا نہری نظام دیکھ بھال نہ ہونے پرخطرے میں؟

کراچی کا آبی نظام شدید خطرے میں، حالیہ سیلاب نے صورتحال بدترین کر دی, نہری نظام کی بحالی کے لیے فوری ڈیسلٹنگ ناگزیربن گیاہے

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) شہر قائد کی شہ رگ کہلانے والا کے بی فیڈر، جو کینجھر جھیل سے روزانہ میٹھا پانی کراچی تک لاتا ہے، گزشتہ تین دہائیوں سے کسی بڑے پیمانے کی صفائی یا ڈیسلٹنگ (Desilting) مہم سے محروم ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریت، مٹی اور آبی کچرے سے بھرا ہوا یہ نہری نظام اب اپنی اصل گنجائش سے تقریباً 40 فیصد کم صلاحیت پر چل رہا ہے۔

اور اب پنجاب و اندرون سندھ میں حالیہ تباہ کن سیلاب نے مزید ریت و گاد نچلی دھاروں میں بہا دی ہے، جس کے بعد ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ کراچی کو ایک ایسی پانی کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے جو پہلے کبھی نہ دیکھا گیا ہو۔اس سنگین صورتحال پر ہنگامہ طورپر نہرکی صفائی کا انتظامات کی ضرورت ہے،عرصہ دارز سےنظر انداز ہوتا نظام کراچی میں پانی کا بحران پیدا ہوسکتاہے۔

ذرائع کے مطابق، (کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن) کا نہری اور کنڈوئٹ نیٹ ورک، جو روزانہ کروڑوں گیلن پانی فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن ہوا تھا، کئی دہائیوں سے ادارہ جاتی غفلت کا شکار ہے۔

خود کارپوریشن کی تکنیکی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پچھلے 20 سے 30 برس میں کم از کم 40 تا 50 ایم جی ڈی پانی کی گنجائش صرف اس لیے ضائع ہوئی کیونکہ سلٹنگ پر کبھی قابو نہیں پایا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ

بعض انجینئرز اور ماہرین کی بارہا وارننگ کے باوجود کسی جامع صفائی مہم کا آغاز نہ ہوسکا۔ بہانہ ہمیشہ ایک ہی رہا ۔ فنڈز کی کمی، افسر شاہی کی رکاوٹیں اور سیاسی ترجیحات کی تبدیلی۔ مگر ان سب کا مجموعی اثر یہ نکلا کہ نہری نظام کی ہائیڈرولک کارکردگی مسلسل گرتی رہی۔

انجینئرز اور ماہرین کی بارہا وارننگ کے باوجود کسی جامع صفائی مہم کا آغاز نہ ہوسکا۔ بہانہ ہمیشہ ایک ہی رہا ۔ فنڈز کی کمی، افسر شاہی کی رکاوٹیں اور سیاسی ترجیحات کی تبدیلی۔ مگر ان سب کا مجموعی اثر یہ نکلا کہ نہری نظام کی ہائیڈرولک کارکردگی مسلسل گرتی رہی۔

سیلاب کا کاری وارکے دوران نہری نظام اب صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہوچکی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے حالیہ سیلابی ریلوں نے کے بی فیڈر اور کینجھر جھیل میں بھاری مقدار میں ریت، گاد اور نامیاتی مواد ڈال دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری ڈیسلٹنگ نہ کی گئی تو گنجائش مزید 15 تا 20 فیصد کم ہوسکتی ہے، جس سے لاکھوں شہری روزانہ کروڑوں گیلن پانی سے محروم رہیں گے۔

ایک سینئر ہائیڈرولوجسٹ کے مطابق: ’’یہ اب معمولی آپریشنل مسئلہ نہیں رہا۔ یہ تین دہائیوں کی غفلت اور موسمیاتی شدت کا مشترکہ دھماکہ ہے‘‘۔

اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو کراچی اپنی تاریخ کے بدترین پانی بحران کی طرف جا رہا ہے’’ شہریوں پر اثراتبھی پانی میں مسلسل کمی سے نفسیاتی مسائل اور مالی بوجھ میں اضافہ ہورہاہےکراچی کے ساڑھے تین کروڑ سے زائد شہری پہلے ہی سخت پانی بحران جھیل رہے ہیں‘‘۔

اکثر علاقے برسوں سے ٹینکر مافیا پر انحصار کرتے ہیں۔ نئی کمی کے بعد گھروں میں پانی کے وقفے مزید بڑھ جائیں گے، کئی علاقہ آفت زادہ بن گےاورسپلائی کے دورانیے سکڑ جائیں گے اور ٹینکرز پر انحصار بڑھے گا — یعنی عام خاندانوں کے اخراجات میں خطرناک اضافہ ہوگا۔

فوری کارروائی کی پکار
ماہرین اور سماجی کارکن متفق ہیں کہ صرف ایک ہنگامی ڈیسلٹنگ و بحالی پروگرام ہی شہر کو مکمل تباہی سے بچا سکتا ہے۔تین دہائیوں سے نہر کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ آپ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ یہ نظام اپنی اصل صلاحیت کے مطابق کام کرے گا؟

اگر میئرکراچی اور صوبائی حکومت نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا پانی بحران سر پر کھڑا ہوگا۔” دائمی غفلت کا باب،یہ معاملہ دراصل کراچی کے پانی کے ڈھانچے میں مسلسل کم سرمایہ کاری اور غیرسنجیدگی کا نیا باب ہے۔ جدیدیت یا وسعت کے تمام منصوبے — بشمول بارہا مؤخر ہونے والا کے فور (K-IV) منصوبہ — کبھی سیاسی رکاوٹوں، کبھی بدانتظامی کا شکار ہو کر رکے پڑے ہیں۔ اس دوران شہر کی آبادی کئی گنا بڑھ گئی، مگر بنیادی ڈھانچے کی مرمت یا دیکھ بھال صفر رہی۔ حالیہ سیلاب نے ان کمزوریوں کو ننگا کر دیا ہے۔

آگے کا راستہ،کراچی کی بڑھتی ہوئی پیاس صاف پانی مانگ رہی ہے۔ اگر فوری صفائی اور بحالی نہ کی گئی تو شہر کے لاکھوں باسی ٹینکر مافیا، قلت اور مہنگائی کے شکنجے میں مزید پھنس جائیں گے۔

اصل سوال یہی ہے

کیا حکومتی قیادت اس بحران کو ہنگامی حیثیت دے گی، یا ایک بار پھر کراچی کے شہریوں کو غفلت کا خمیازہ بھگتنا ہوگا؟

یہ نہری نظام یا بلک واٹر سپلائی کا نگران سکندر

علی زرداری ہے جو حب کینال کی 14ارب روپے

برباد کرچکے ہیں اور اس میں تعمیرات کی ناقص

،غیر معیاری تعمیرات سے 10کروڑ گیلن پانی کا

منصوبہ خطرے میں پڑچکا ہے

جس کی آزاد شفاف تحقیقات کے بجائے حیلے بہانے بنایا جارہا ہے شہریوں کا حب کینال میں کنسلٹنٹ جی تھری،ٹیھکیدار واہ کنٹریشن کمپنی سمیت تمام اداروں کےخلاف کاروائی کی جائے۔

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں