کراچی دنیا کا منفرد و انوکھا شہر بن گیا، جہاں 21 میونسپل سروسز، 23 لینڈ کنٹرول اور 3 ڈیولپمنٹ ادارے
کے ڈی اے, ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے، وقت کام کر رہے ہیں
سنگل کمانڈ اور اختیارات کا نچلی سطع پر منتقل کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) ساڑھے تین کروڑ سے زائد کی آبادی والے شہر کراچی میں اختیارات کی جنگ جاری ہے،جو اب دنیا کا منفرد و انوکھا شہر بن گیا ہے جس میں بیک وقت 21 میونسپل سروسز کے ادارے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ لینڈ کنٹرول بیک وقت 23 اداروں کو حاصل ہے جن کا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ ہے نہ کوئی مشاورت کی جاتی ہے۔ چینج آف کمانڈ کی کراچی کو اشد ضرورت ہے۔
چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ ہو، اختیارات کئی ادارے کنٹرول کررہے ہیں۔ بارش، سیلابی ریلا،طوفان،ہنگامی حالات، ریلیف،آبادکاری اور کراچی کے ندی نالے کی صفائی کا مسئلہ ہو بیک وقت کئی ادارے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
وفاقی و عسکری اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ کے ایمن سی ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، کمشنر کراچی، 7 ڈپٹی کمشنرز، 34 ایڈیشنل کمشنروں کے علاوہ کچی آبادی، گوٹھ آباد، ریونیو، آبادکاری، سندھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور سندھ پولیس بیک وقت کام رہے ہیں۔ میئر کراچی مرتضی وہاب کو کراچی کے 32 فیصد لینڈ کنٹرول کے اختیارات حاصل ہیں۔
تاہم قیام پاکستان سے قبل میئر کراچی پورے کراچی کے نگران تھے۔ وقت کے ساتھ اختیارات سکڑتے چلے گئے اور وقت کے ساتھ مختلف اداروں کا قبضہ شروع ہوگیا۔
کراچی کے مسائل کے حل کے بجائے سندھ کے حکمرانوں نے الٹا مذاق بناتے رہے ہیں۔ میئر کراچی کے علاوہKW&SCA اور سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کے 100 ارب روپے زائد بجٹ کے اختیارات کے مالک ہیں، اس کے باوجود انہیں سندھ سرکار کی مکمل حمایت حاصل ہے اسی لیئے وہ اصل کارکردگی کے بارے میں بتانے کے بجائے اپنی چرب زبان استعمال کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔
ان کے 18 سالہ طویل دور اقتدار میں ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات دلوانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں(حالانکہ ریٹائرڈ ملازمین انتہائی مظلوم ہوتے ہیں)۔ کراچی کے چھوٹے بڑے 512 نالوں کی صفائی اور دیکھ بھال میں بھی مکمل ناکام رہی ہے۔
سندھ حکومت نےکے ایم سی کو 128 سڑکیں، فٹ پاتھ، گرین بیلٹ، مڈ لائن، چورنگی، چوک، بجلی کے کھمبے،ریتی بجری، ملبہ، تجاوزات سمیت دیگر آمدن کا ہدف دے دیا تھا۔
تجاوزات سیل کے افسران کا کہنا ہے کہ 22 سڑکوں پر ٹاؤن انتظامیہ نے زبردستی قبضہ کرلیا ہے جسے میئر کراچی بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں اور جواب دینے کے بجائے اس سلسلے میں مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔ سندھ سرکار کے کے ایم سی کے کئی شعبہ جات پر قبضہ ہونے پر بھی ایک احتجاج ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔
میئر کراچی میئر کے سرکاری بنگلے پر صوبائی وزیر بلدیات سے قبضے کو چھڑوانے میں ناکام ہوچکے ہیں،جس کے نتیجے میں کراچی کے مسائل حل ہونے کے بجائے مسائل اور عوامی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
کئی مسائل باآسانی حل ہوسکتے ہیں بشرط ہے کہ ایک ادارہ دوسرے کے ساتھ باہمی رابطہ، تعاون اور مشاورت سے ہی ہوتا ہے لیکن مسائل جوں کے توں موجود ہیں اور مستقبل میں بھی اسی طرح رہنے کی توقع ہے۔ کراچی کے موجودہ حالات کے پیش نظر اب سنگل کمانڈ کنٹرول کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا وجود 148 سال قبل عمل میں آیا تھا لیکن اب بلدیہ عظمیٰ کراچی کا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے۔ ایس ایل جی او ایکٹ 2013 اور ترمیمی ایکٹ 2021ء کے بعد ادارے کے اختیارات سلب کر دیئے گئے ہیں اور اب مالیاتی اور انتظامی امور میں بھی سندھ حکومت کے بلدیاتی اور دیگر محکموں نے قدغن لگانا شروع کردیا ہے۔
بلدیہ عظمی کراچی کے لینڈ ڈپارٹمنٹ کی سرگرمیاں معطل رہیں بعض دور میں پابندی کے دوران تمام کام بند رہا تھا۔ ریونیو اور ریکوری کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔
نجی اداروں کے نام پر اپنے منظور نظر افراد کو نوازنے کا سلسلہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ کے الیکٹرک سے زمین کے بدلے میں ملنے والے تین ارب روپے تاحال کے ایم سی کے اکاونٹ میں نہیں پہنچ سکے بلکہ سندھ سرکار کے اکاؤنٹ میں پہنچ گئے ہیں اس پر اعلی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔
کراچی کا پہلا ماسٹر پلان 1974ء میں پیپلز پارٹی کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو نے اس پلان پر عملدرآٓمد کے لئے 30 کروڑ روپے فنڈز کے اجراء سے صاف انکار کردیا ہےجبکہ دوسرا ماسٹر پلان 2009ء میں سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے دور میں تیار کیا گیا تھا لیکن پھر پیپلز پارٹی کی کراچی پلان پر عملدرآمد سے انکار کر دیا۔اس پلان میں 2050ء تک کا احاطہ کیا گیا تھا۔
نئے پلان میں کراچی کے دو ائیرپورٹ، 29 مارکیٹوں کی سپرہائی پر منتقلی اور ہاکس بے ٹرک اڈے کو شفٹ کرنا شامل ہیں۔ گذشتہ 17 سال میں ایک بھی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ہے۔
ملک کی طرح محروم رہنے والا انٹرسٹی بس ٹرمینل کے 100 ایکٹر مختص سپر ہائی وے کی زمین پر سندھ سرکاری کی ایما پر مکمل قبضہ ہوچکا ہے۔
نیشنل ہائی وے اور حب ریور روڈ کی زمینوں پر قبضہ ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی کی متعصب سرکار نے کراچی کے مدر ڈپارٹمنٹ کراچی ماسٹر پلان کو برباد کرنے کے لئیے پہلے ماسٹر پلان کو سندھ کے ایک ذیلی محکمہ، سندھ (کراچی) بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ماتحت کر دیا گیا تھا اور اب ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کی افادیت ختم کرنے کے لئے سندھ ماسٹر پلان بنا کر سندھ کا ایک بدعنوان ادارہ بنا دیا گیا ہے(سندھ حکومت کا مقصد یہی ہے کہ ماسٹر پلان بنایا ہی نہ جائے تاکہ کراچی کی قیمتی زمینوں پر باآسانی قبضہ کیا جاسکے)۔
محکمہ ماسٹر پلان میں ٹیکنیکل افسران کی تقرری کے بجائے محکمہ میں سفارشی اور نااہل افراد کو سندھ کے دیگر محکموں سے تعینات کردیا گیا ہے۔
محکمہ ماسٹر پلان میں ایک ٹیکنیکل افسر تعینات ہے جس کو کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت کے محکمہ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہنگامی نوعیت کے تمام کام اسی ادارے کے پاس ہیں لیکن وہ صرف پیشگی اطلاعات کے علاوہ کراچی کے تین نالوں بشمول گجر نالہ، محمود آباد و منظور کالونی اور اورنگی نالہ کی منتقلی کے ساتھ جو ترقیاتی کام تھے وہ ادھورے منصوبے بن گئے
منصوبے میں نالے کی تعمیرات، سٹرک بنانے، فٹ پاتھ کی تعمیرات، اسٹریٹ لائٹس، مختلف مقامات پر ملانے کے پلوں کی تعمیرات کے ساتھ گرین بیلٹ(درخت لگانے) کا منصوبہ شامل تھا لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے باوجود وفاقی نہ صوبائی حکومت نے اس پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر کیا اور نہ ہی کسی سول سوسائٹی نے ناراضگی کا اظہار کیا نہ اس پر ایک لفظ تک بولا اور نہ ہی کسی فورم سے کوئی احتجاج کیا گیا۔
کراچی میں وفاقی و عسکری اداروں میں چھ کنٹونمنٹ بورڈ (ملیر،کورنگی، منوڑا،کلفٹن،فیصل، صدر کراچی)، چھ عسکری(ون سے چھ)،PAF، نیوی، عسکری لینڈ ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی، سول ایوی ایشن، پاکستان ریلوے، پورٹ قاسم اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، ایکسپورٹ پروسسنگ زون، پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر وفاقی، صوبائی اور عسکری ادارے اپنے اختیارات سے تجاویز کرگئے ہیں۔
کراچی میں چھ کنٹومنٹ بورڈز کا قیام 1925ء ایکٹ کے تحت کیا گیا تھا۔ یہ شہری آبادی 35 ملین، آبادی کا تناسب 6.3 فیصد سالانہ، شہری علاقہ 3600 اسکوائر کلومیٹر میں 1800 اسکوائر کلومیٹر،سڑک نیٹ ورک 10,000 کلومیٹر۔ 1846ء میں بلدیہ کراچی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1853ء کو KMC میونسپل کمیٹی،1933ء میں میونسپل کارپوریشن بن گیا۔ 30.9 بلدیہ عظمی کراچی، 3.9 پرائیویٹ لینڈ، 0.4 پاکستان ریلوے،1.5پورٹ قاسم اتھارٹی، 2.8 کراچی پورٹ ٹرسٹ،5 ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی، 0.5 وفاقی حکومت،2.1 چھ کنٹومنٹ بورڈز،1.8 کوآپریٹیو ہاوسنگ سوسائٹیز، 2.7 صنعتی زون،5.6 لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی،0.6 سندھ انڈسٹریز اسٹیٹ،17.7سندھ حکومت،3.9 ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی،20.7 کیتھر نیشنل پارکس، منصوبہ بندی، ترقیات اور دیکھ بھال،پلوں،فلائی اوور، انڈر پاسز، برج، سندھ سولڈ ویسٹ بورڈ،ماسٹر پلان، بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ایجوکیشن اور ہسپتال،انویسٹمنٹ اینڈ پروموشن انٹرپرائز،اسٹریٹ لائٹ، برساتی نالوں،خصوصی ترقیاتی پروگرام،مشاورت، نگرانی اور سرپرستی، 5 فیصل کنٹونمنٹ بورڈز، 6 کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈز،7 کراچی کنٹونمنٹ بورڈز، 8 کورنگی کریک کنٹونمنٹ بورڈ، 9 ملیر کنٹونمنٹ بورڈز،10 منوڑا کنٹونمنٹ بورڈز،11 بورڈ آف ریونیو سندھ،12 سندھ کچی آبادی اتھارٹی،13 گوٹھ آباد اسکیم،14 سول ایوی ایشن، 15 پاکستان اسٹیل ملز، 16 کراچی پورٹ ٹرسٹ۔ کے پی ٹی کا قیام 1887ء میں ہوا تھا۔133 سال ہوچکے ہیں،17 پورٹ قاسم اتھارٹی،18 پاکستان ریلوے،19 ہاوسنگ سوسائٹیز،20 سائٹ لمیٹیڈ،سائٹ انڈسٹریز ٹریڈنگ اسٹیٹ، جس کا سندھ اسمبلی سے 2 جون 1947ء کو قیام عمل میں لایا گیا اور کمپنیز ایکٹ 1984ء وجود میں لایا گیا۔