نئی حب کینال ادھورا ناکام منصوبہ بن گیا،کراچی میں پانی کا اضافہ نہیں ہوگا

نئی حب کینال

مختلف جگہوں پر شگاف پڑنے کی وجہ سے منصوبے کا افتتاح کھٹائی میں پڑنے کی توقع ہے۔ نہ فلٹر، نہ پمپنگ میں اضافہ منصوبہ میں شامل ہیں، 14 ارب کی خطیر رقم خرچ، مزید اضافہ ہوسکتا ہے

ناقص تعمیرات کی اشرف ڈی بلوچ کی کمپنی ذمہ دار ہے، قانونی کاروائی کنٹریکٹر واءکنٹریشن کمپنی پر ہوسکتی ہے۔اب عثمانی کمپنی کنسلٹنٹ کو دیدیاگیا

کنال میں شگاف پڑنے اور دراڑیں پڑنے کا اعتراف کنسلٹنٹ ڈاکٹر رفیع نے بھی کر لیا

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) حب کینال کراچی کا ادھورا اور نامکمل منصوبہ بن گیا ہے۔ منصوبے میں نہ پانی کے فلٹر میں اضافہ کیا گیا،نہ پمپنگ کی صلاحیت بہتر کی گئی۔

مبینہ طور پر یہ منصوبہ ناقص تعمیرات،بدعنوانی کی وجہ سے 14 ارب روپے ضائع ہونے کا خدشہ ہے ۔ اس منصوبے سے کراچی کے پانی میں اضافہ نہیں ہوگا۔ یہ میئر کراچی اور واٹر کارپوریشن کے چیئرمین کا ناکام منصوبہ ہوسکتاہے۔

حب کینال کی دیکھ بھال پر بجا اخراجات اور ہے یعنی چار کروڑ گیلن پانی کم فراہم کرنے کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے سے کراچی کے پانی میں اضافہ نہیں ہوگا۔

یہ میئر کراچی اور واٹر کارپوریشن کے چیئرمین کا ناکام منصوبہ ہوسکتاہے۔ حب کینال کی دیکھ بھال پر بجا اخراجات اور ہے یعنی چار کروڑ گیلن پانی کم فراہم کرنے کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ حب کینال کی تعمیر کی وجہ یہ ہے کہ کینال اپنی 50 سال مدت پوری کرچکا ہے ۔

نئی حب کینال ادھورا ناکام منصوبہ بن گیا،کراچی میں پانی کا اضافہ نہیں ہوگا۔

حال ہی میں حب کنال پراجیکٹ کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر رفیع صدیقی نے میڈیا کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ یکم جولائی کو کینال کے ٹسٹ کے دوران بعض مقامات پر شگاف اور ڈارڑ پڑ گیا تھا جس کی ویڈیو اب جاری ہوئی ہے۔

اگست 13 کو شگاف پڑنے اور کچھ جگہوں پر دراڑیں پڑ گئی ہیں جس کی مرمت کی جاری ہے اور امید ہے کہ مقررہ وقت پر کام مکمل کر کے افتتاح کر دیا جائے گا تاہم ناقص کارکردگی کی وجہ سے DHAسٹی سے کنسلٹنٹ عثمانی اینڈ کپمنی کو برطرف کردیا ہے ۔

اس کی وجہ سے کے فورمنصوبہ اور اب اس کپمنی کو میں بھی ناکامی کا سامنا کرناپڑا ۔ اب اس کپمنی کو حب کینال پروجیکٹ میں شامل کرلیا ہے ۔

یادرہے کہ حب ڈیم کا معاہدہ واپڈا سے 1984ء میں ہوا تھا۔ پہلے منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک دیکھ بھال اور مرمت واپڈا کرتا تھا، نئی بلدیاتی نظام کے دوران واپڈا نے زیرو پوائنٹ سے 22.74 کلومیٹر تک کینال کی ذمہ داری2001ء میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سپرد کر دی تھی جس کے بعد کینال کی دیورایں، پلیں، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں، جگہ جگہ دراڑیں پڑ جانے سے پانی مسلسل ضائع ہو رہا ہے اور حب ڈیم سے 10 کروڑ گیلن یومیہ پانی منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک پہنچنے میں صرف چھ کروڑ 20 لا کھ گیلن یومیہ پہنچ رہا ہے اورکراچی میں 20 سال بعد صرف 3 کروڑ 80 لاکھ گیلن پانی کا اضافہ ہوگا،اس منصوبہ کو جی تھری کنلسٹنٹ اور کنٹریکٹر واء کنٹریشن کمپنی (گورٹمنٹ ادارے) کو براہ راست سندھ حکومت نے ٹھیکہ دیا تھا ۔

واء کنٹریشن کمپنی نے منصوبے کی تعمیرات نہیں کی بلکہ بدعنوان کمپنی اشرف ڈی بلوچ (فیم سکندر بلوچ) کو آٹھ ذیلی یا سب کنٹریکٹ دے دیا تھا ۔

حب کینال میں نئے کینال کی تعمیرات مذکورہ کمپنی نے تمام تعمیرات کی تھی،پروجیکٹ ڈائریکٹر سکندر زداری، ان کے ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر مصطفی مگسی ہے ۔

سروے رپورٹ کے مطابق ناقص تعمیرات سے سب کنٹریکٹ کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی نہیں ہوسکتی ۔ تمام تر ذمہ داری واء کنٹریشن کمپنی اور جی تھری کنسلٹنٹ کمپنی کی ہوگی ۔ اب منصوبہ عثمانی اینڈ کپمنی سامنے آگئی ہے ۔

کارپوریشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے میں پمپنگ کی گنجائش میں اضافہ کرنے پر فنڈز مختص نہیں کیا اورنہ ہی منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن کا پمپنح کی ۔ گنجائش10 کروڑ گیلن تھی جس کی دیکھ بھال اور موٹرز کی مرمت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشن صرف دو موٹرز سے 7 کروڑ گیلن پمپ کیا جارہا ہے ۔

پمپنگ اسٹیشن کی 20 سال قبل اپ گریڈاورتعمیرات سابق ناظم کراچی نے کے تھری منصوبے کی تعمیرات کے بعد شروع کیا گیا تھا جس میں کے تھری کا پانچ کروڑ گیلن پانی کی فراہمی جاری ہے فلٹریشن کا نظام بھی درست نہیں، موجودہ پمپنگ اسٹیشن میں 7 کروڑ گیلن پانی یومیہ فلٹر کیا جارہا ہے ۔

حب کینال مکمل ہونے پر 10 کروڑ گیلن پانی فراہم کے باوجود فلٹریشن میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوسکتا ہے نہ پمپنگ کی گنجائش ہوگی۔

ایک افسر کا کہنا ہے کہ اسی لیے حب کینال کے منصوبے میں نہ منصوبہ بندی کی گئی نہ اس پروجیکٹ کا فنڈز مختص کیا گیا ۔

کراچی میں پانی کا اضافہ نہ ہونے باوجود بورڈ کے چیئرمین مرتضی وہاب نے بڑے بلند بانگ دعوے کرتے رہے، لیکن نہ میڈیا اور نہ دیگر کسی ادارے کو کینال کا دورے کی دعوت دی گئی جبکہ ایک خطیر رقم خرچ کردی گئی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ پانی اوپن کینال کے ذریعے کراچی کو فراہم کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہاں حفاظتی انتظامات نہیں ہوسکتا ہے ۔ پانی چوری، ٹینکروں میں بھرائی پر پابندی کے باوجود پانی بھرا جا رہا ہے ۔

حب کینال میں نئی کینال کے بجائے کنڈیوٹ یا پائپ لائن کی تعمیر اسی فنڈز سے ہو سکتی تھی۔ بدعنوانی کی وجہ سے کراچی کے نام پر فنڈز ضائع ہوگا ۔

قبل ازیں یہ منصوبہ سندھ پبلک پرائیویٹ پارنٹر شپ کے تحت کئی سالوں تک سندھ حکومت دیکھ رہی تھی، تاہم میئر کراچی و چیئرمین (کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن) مرتضی وہاب نے سندھ حکومت سے منصوبہ پر براہ راسست فنڈز جاری کرایا ہے ۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جو اوپن ٹینڈر کے بجائے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ادارے کو تعمیرات کا ٹھیکہ دیدیا گیا ہے جس میں شفافیت نہیں ہے،۔یہ ٹھیکہ گورنمنٹ ادارہ (واء) کنسٹرکشن کمپنی کو دیا گیا ۔

حب ڈیم نئی کینال کی تعمیر اور پرانے کینال کی مرمت و دیکھ بھال پر تقریبا 12.74 ارب روپے خرچ ہوں گے، منصوبے میں فنڈز میں اضافہ ہونے کا قومی امکان ہے ۔

موجودہ نہریں اور کنیالوں کے پانی کی چوری کو روک تھام اور رساؤ کا کوئی نظام واضح ہے نہ پانی کو ناپنے کا پیمانہ موجود ہے، اوپن کینال میں نہ حفاظتی انٹظامات ہے نہ کوئی میٹر لگا ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق تین سے چار کروڑ گیلن پانی یومیہ کمی یا ضائع یاچوری ہو رہا ہے ۔ اورنگی ٹاون، بلدیہ ٹاون،سرجانی کے علاوہ دیگر آبادی کو پانی فراہم کیا جائے گا ۔

حکومت نے پانی کا منصوبہ کیماڑی ضلع کو فراہم کیا ہے۔ قبل از وقت نئی کینال میں کئی جگہوں پر شگاف پڑنے کی وجہ سے منصوبہ کا افتتاح کھٹائی میں پڑنے کی توقع ہے۔ 10، دسمبر 2024ء میں شروع ہونے والا منصوبہ چھ ماہ کے دوران نئے کینال کی تعمیرات کا کام مکمل کرنا ہی مشکوک بنادیتا ہے ۔

اگست 10سال 2025 کو آزمائشی طور نئی کینال میں پانی چھوڑا جائے گا اور 13گست 2025ء کو افتتاح کردیا جائے گا۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر سکندر علی زرداری کا کہنا ہے کہ حب کینال میں کوئی رساؤ یا بڑا فالٹ رپوٹ نہیں ہوا ہے ۔

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں