نان ٹیکنیکل شخص واٹر کارپوریشن کا سی ای او بن گیا

واٹر بورڈ میں میرٹ کا قتل عام، سی ای او تقرری کا ڈرامہ بے نقاب، میرٹ کا قتل عام کا صلہ سربراہ بنا کر لوٹ مار کے دروازے کھول دیئے گئے

“سسٹم” کی گرفت مزید مضبوط! شہر پانی کے ایک نئے بحران کے دہانے پر، سی ای او کا اعلان کے باوجود نوٹیفکشن جاری نہ ہوسکا

شہر میں ابھی سے ہی تنقید شروع ہو گئی کہ اب لوٹ مار کا ایسا دور شروع ہو گا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ادارہ میں چہ میگوئیاں عروج پر ہے۔

کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن (کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن) میں سی ای او کی تقرری کے نام پر ایک بار پھر عوام کو شفافیت کا خواب دکھایا گیا لیکن نان ٹیکنیکل شخص کو سربراہ کر تمام خواب چکناچور ہو چکا ہے۔

عدالتی احکامات کے باوجود ادارے میں جو تقرری کی گئی، وہ میرٹ پر نہیں بلکہ ایک طاقتور اور منظم “سسٹم” کے اشاروں پر ہوئی ہے۔ ایسا سسٹم جو برسوں سے ادارے کو اپنی مٹھی میں لیئے ہوئے ہے اور جو ہر آنے والے اصلاحاتی عمل کو سبوتاژ کر کے لوٹ مار کے نئے دروازے کھول دیتا ہے۔

اب کہہ سکتے ہیں کہ لوٹ مار کا سسٹم جیت گیا اور میرٹ کا سسٹم ہار گیا۔تقریری کا نوٹیفکیشن بظاہر معطل، لیکن “سسٹم” اپنی لوٹ مار بچانے کے لیئے متحرک۔

ذرائع کے مطابق، بورڈ نے جس احمد علی صدیقی کے نام کو سی ای او کے لیئے فائنل کیا، ان کا تقرر تو ہوا، مگر تاحال نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

یہ تاخیر کوئی سادہ معاملہ نہیں بلکہ ایک گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ یہ تاخیر “سسٹم” کو مزید سانس لینے اور اپنی گرفت مضبوط کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ اس دوران، وہی پرانا گروہ جو ہائیڈرنٹس مافیا،، سب سوئل مافیا جعلی کنکشنز اور پانی کی غیر قانونی فروخت جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہے اور ادارے کو پیچھے سے چلا رہا ہے اسے کھلی چھوٹی دے دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کر لے اور پوچھنے والا بھی کوئی نہ ہو کیونکہ قائم مقام سی ای او یہی کہتے ہیں کہ میں صرف روز مرہ کے کاموں کے لیئے آیا ہے، مستقل اور بڑے معاملات میرے کام کا حصہ نہیں ہے۔ اس دوران چیف انجینئر ریٹائرڈ ہو گئے مگر اصل کنٹرول برقرار ہے؟نیا انکشاف مزید خطرناک ہے۔

حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے چیف انجینئر مکینیکل انتخاب راجپوت جو ایک افسر کے نہایت قریبی سمجھے جاتے ہیں ان کو عثمانی اینڈ کمپنی میں نوکری دلوائی گئی لیکن “دلچسپ” بات یہ ہے کہ ان کی تعیناتی واٹر بورڈ کے کارساز ہیڈ آفس میں ہی کی گئی۔

ذرائع کے مطابق وہ اب بھی واٹر بورڈ کے اہم فیصلے پس پردہ احکامات پر چلا رہے ہیں ۔ یہ ایک ایسا “بائی پاس” نظام ہے جہاں باقاعدہ عہدے پر موجود افسران غیر متعلق ہو چکے ہیں، اور اصل فیصلے پس منظر میں بیٹھے ہوئے افراد کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔

اس صورتحال نے ادارے کے اندر افسران کی دو الگ دنیائیں پیدا کر دی ہیں، ایک وہ جو فائلوں پر دستخط کرتے ہیں، اور دوسری وہ جو اصل فیصلے کرتے ہیں۔

اس وقت ٹیکنیکل قیادت کا شدید بحران ہے ،قائم مقام سی ای او کیونکہ خود نان ٹیکنیکل ہیں اس لیئے بے بس ہیں؟ ادارے میں اس وقت کوئی مؤثر ٹیکنیکل قیادت موجود نہیں ہے۔

عامر وقار جیسے اہل افسر اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے سی ای او یا ایم ڈی کو وقت نہیں دے پا رہے، جبکہ تحسین جیسے جونیئر افسران مشورہ دینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ خرم شہزاد جیسے سینئر ماہر اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث دسترس میں نہیں ہیں اور ان سے سوائے لکھنے پڑھنے کے کوئی کام نہیں لیا جارہا ہے ایسے میں سی ای او کے لیے ٹیکنیکل اسٹیئرنگ مکمل طور پر غیرفعال ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے ادارہ بحرانی کیفیت میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سی ای او نے خود حکومت سندھ اور دیگر اعلیٰ اداروں سے فوری طور پر ایک ماہر ٹیکنیکل ایڈوائزر کی تعیناتی کی درخواست کی ہے، تاکہ وہ اس شدید ادارہ جاتی خلاء کو پُر کر سکے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیر اعلی خود امریکا سے کولیفائیڈ انجینئر ہیں لیکن ان کی ایماء پو نان انجینئر کو ادارہ کا سربراہ بنا کر نہ صرف ادارے کے ساتھ بلکہ کراچی شہر کے ساتھ ظلم و ستم کی انتہا کی گئی۔

کراچی کے مئیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب بحیثیت چیئرمین خاموش کیوں ہیں؟ سیاسی مصلحت یا مجبوری ہے؟ یا وہ خود اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنا سسٹم بنا رہے ہیں؟۔

ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب ان تمام اندرونی رسا کشی سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، لیکن سیاسی مصلحت، اتحادی دباؤ یا انتظامی مجبوریوں کے باعث خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہی خاموشی “سسٹم” کے حوصلے بلند کر رہی ہے۔اب ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو شہر جو پہلے ہی پانی کے بحران کا شکار ہے، اب شدید بحران کی طرف بڑھے گا۔

اس پورے مسئلے پر میئر کی مسلسل خاموشی سے پانی کی فراہمی، نکاسی کا نظام اور ادارہ جاتی شفافیت سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے۔

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو کراچی کو ایک اور شدید آبی و نکاسی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے، جس کے نتائج شدید عوامی مشکلات، صحت عامہ کے خطرات اور بدامنی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔

اسی لیے اب شہری سمیت تمام ماہرین یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری طور پر ٹیکنیکل (انجینئر) سی ای او کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، تاکہ واٹر بورڈ میں “سسٹم” کی غیرقانونی مداخلت اور کھلے عام لوٹ مار کو بند کی جا سکے۔ ٹیکنیکی مشاورت کے لیے ایک آزاد اور قابل ٹیکنیکل ایڈوائزر کو فوری تعینات کیا جائے۔

ادارے میں سیاسی تقرریوں کی جگہ پیشہ ور ماہرین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے ۔ یہ کوئی معمولی خبر نہیں بلکہ یہ ایک انتباہ ہے کہ اگر اب بھی اصلاحات نہ کی گئیں، تو کراچی کا پانی، سیاست کی نذر ہو کر عوام کے لیے زہر بن جائے گا ۔

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں