ادارے کا ایک اہلکار معطل ہوا جس کی تحقیقات کا اعلان نہیں ہوا بلکہ فیکٹری مالکان کے خلاف ایف آئی آر کٹا کر بڑی تعداد میں ملوث افسران کو بچا لیا گیا۔
واٹر کارپوریشن کے افسران کی نگرانی میں کراچی کے پانی کی چوری جاری ہے۔
ڈینم انٹرنیشنل کمپنی،ابراہیم ٹیکسٹائل، ایم این ٹیکسٹائل اور فیروز ٹیکسٹائل کی آڑ میں پانی چوری کا بڑا نیٹ ورک بے نقاب،کورنگی میں کئی فیکٹریاں پانی چوری میں ملوث نکلیں؟
دوسال قبل ایکسین رشید جاکھرانی نے تحریری پر کاروائی نہ ہوسکا ۔ کروروں گیلن پانی چوری کے باوجود کارپوریشن میں مکمل خاموشی ہے، میئر کراچی کی ہدایت پر واٹر کارپوریشن کا گرینڈ آپریشن، سی او او کی نگرانی میں ہوا۔
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی واٹر کارپوریشن نے پانی کی چوری کے خلاف ایک بڑا گرینڈ آپریشن کامیابی سے کیا لیکن نہ ادارے کے افسران و ملازمین کے خلاف ایکشن ہوا، نہ کوئی معطل ہوا، نہ کسی قسم کی تحقیقات کی گئی اور نہ ہی اس کا اعلان کیا گیا جبکہ یہ کاروائی خفیہ اطلاع پر کی گئی تھی جس میں کنڈیوٹ لائن سے سمر پمپ کے ذریعے پانی کھلے عام چوری کیا جا رہا تھا۔
مرکزی شاہراہ مہران ہائی وے پر جمپر بنا کر پانی کی بڑی واردات کا سلسلہ جاری تھا۔ دو سال قبل ایگزیکٹو ابجیئر رشید جانگھرانی نے تحریر ی درخواست دی تھی ایک بڑے افسر نے کاروائی سے روک دیا اور خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کی۔
اس امر کی تحقیقات کرنے ضرورت ہے، ایک سماجی رہنما علامہ رضوان فاروقی نقشبندی نے کہاہے کہ یہ غیر قانونی کنکشن چھ سات سال سے لگاہے دو سال قبل ہمارے احتجاج پر کاروای نہ ہوسکا ایک فیکڑی 80/90لاکھ روپے ماہانہ پانی چوری کیا جارہا تھاکارپوریشن کے واٹر ٹرنک مین،(WTM)،کورنگی ڈویژن (اسسٹنٹ انجینئر، سب انجینئر، ایکزیکٹیو انجینئر، سپریٹنڈنٹ انجینئر)، پانی چوری پر بننے والی اینٹی تھیف سیل،بلک سپلائی کرنے والی عملے کے ساتھ بلک میٹر کے ذریعے نگرانی کرنے والی میٹر ڈویزن کی آنکھوں کے سامنے پانی کھلے عام چوری ہو رہا تھا، لیکن کسی محکمے نے پانی چوری سے آگاہ نہیں کیا بلکہ ایک خفیہ اطلاع کے ذریعے چیف سیکورٹی آفیسر و اینٹی تھیفٹ سیل، سب سوئل کے سربراہ کو اطلاع ملی تھی۔
ڈینم انٹرنیشنل کمپنی، ابراہیم ٹیکسٹائل، ایم این ٹیکسٹائل اور فیروز ٹیکسٹائل کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ترجمان واٹر کارپوریشن نے کہا ہے کہ کراچی میں پانی چوروں کے خلاف بلا امتیاز کاروائیاں جاری رہیں گی لیکن ترجمان نے پانی چوری کا ذمہ دار صرف فیکٹری مالکان کو قرار دیا ہے اور ادارے کے کسی افسر یا ملازمین کے خلاف کاروائی کرنے کے معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہے۔ بڑے پیمانے پر پانی کی چوری کارپوریشن کے ملازمین کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
شہری یہ سوال کررہے ہیں کہ اچانک میئر کراچی و پورڈ کے چیئرمین نے ہدایت جاری کر دی ہے اور اس کاروائی کی نگرانی چیف آپریٹنگ آفیسر واٹر کارپوریشن انجینئر اسداللہ خان نے کی جبکہ اینٹی واٹر تھیفٹ سیل اور چیف سیکورٹی آفیسر سمیت واٹر کارپوریشن کا عملہ بھی آپریشن میں شریک تھا۔
دو دن کی کاروائی لانڈھی کے علاقے لیبر اسکوائر ہسپتال چورنگی کے قریب عمل میں لائی گئی جہاں خفیہ اطلاع پر کی جانے والی کاروائی کے دوران پانی کی چوری میں ملوث تین نجی ٹیکسٹائل فیکٹریوں کو بے نقاب کیا گیا، ان میں ابراہیم ٹیکسٹائل، ایم این ٹیکسٹائل اور فیروز ٹیکسٹائل شامل ہیں جو پانی چوری جیسے سنگین جرم میں براہ راست ملوث پائی گئیں۔
سی او او واٹر کارپوریشن انجینئر اسداللہ خان کے مطابق ان فیکٹریوں نے ہالیجی کنڈیوٹ سے 6 انچ قطر کے غیر قانونی سمر پمپ لگا رکھے تھے جن کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں گیلن پانی چوری کیا جا رہا تھا اس عمل سے شہریوں کو ملنے والے پانی کے حصے پر براہ راست اثر پڑ رہا تھا اور شہر میں پانی کی قلت میں اضافہ ہو رہا تھا۔
واٹر کارپوریشن کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر فوری کاروائی کرتے ہوئے تمام غیر قانونی سمر پمپ منقطع کر دیئے اور پانی چوری کے نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کردیا۔ سی او او واٹر کارپوریشن کا کہنا ہے کہ پانی چوری میں ملوث تمام عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی اور کسی بھی ذمہ دار کو بخشا نہیں جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ پانی صرف شہریوں کا حق ہے اس پر کسی بھی غیر قانونی قبضے یا چوری کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور جو افراد شہریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالیں گے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
سی او او نے مزید کہا کہ اگر واٹر کارپوریشن کا کوئی اہلکار اس جرم میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی سخت ترین محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کراچی کا پانی چوروں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں بڑی کامیابی کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔ کئی ماہ سے جاری پانی چوری کا سلسلہ جاری تھا یہ کاروائی پورٹ قاسم انڈسٹریل ایریا کے قریب عمل میں لائی گئی ہے جہاں ڈینم انٹرنیشنل نامی ٹیکسٹائل کمپنی ہالیجی کنڈیوٹ سے غیر قانونی طور پر پانی حاصل کر رہی تھی۔
واضح رہے کہ دورانِ معائنہ انکشاف ہوا کہ کمپنی 6 انچ قطر کے غیر قانونی سمر پمپ کے ذریعے ہالیجی کنڈیوٹ سے یومیہ لاکھوں گیلن پانی چوری کر رہی تھی۔ واٹر کارپوریشن کی فوری کاروائی کے نتیجے میں غیر قانونی سمر پمپ کو موقع پر ہی منقطع کر دیا گیا۔
مزید قانونی کاروائی کے لیے واٹر کارپوریشن نے پانی چوری میں ملوث عناصر کے خلاف متعلقہ تھانے میں مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے۔ اس موقع پر ترجمان واٹر کارپوریشن نے واضح کیا کہ پانی چوری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اس قبیح فعل میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ واٹر کارپوریشن شہریوں کو منصفانہ اور بلا تعطل پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہا ہے اور اس مشن میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایک سماجی رہنما علامہ رضوان فاروقی نقشبندی نے دعوی تھا کہ یہ غیر قانونی کنکشن چھ سات سال سے لگا ہوآ تھادو سال قبل درخواست دی تھی کاروائ نہ ہوسکا ایک فیکٹری ،80/90لاکھ روپے پانی چوری ہورہا تھا، کارپوریشن کے واٹر ٹرنک مین،(WTM)،کورنگی ڈویژن (اسسٹنٹ انجینئر، سب انجینئر، ایکزیکٹیو انجینئر، سپریٹنڈنٹ انجینئر)، پانی چوری پر بننے والی اینٹی تھیف سیل،بلک سپلائی کرنے والی عملے کے ساتھ بلک میٹر کے ذریعے نگرانی کرنے والی میٹر ڈویزن کی آنکھوں کے سامنے پانی کھلے عام چوری ہو رہا تھا، لیکن کسی محکمے نے پانی چوری سے آگاہ نہیں کیا بلکہ ایک خفیہ اطلاع کے ذریعے چیف سیکورٹی آفیسر و اینٹی تھیفٹ سیل، سب سوئل کے سربراہ کو اطلاع ملی تھی۔
ڈینم انٹرنیشنل کمپنی، ابراہیم ٹیکسٹائل، ایم این ٹیکسٹائل اور فیروز ٹیکسٹائل کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ ترجمان واٹر کارپوریشن نے کہا ہے کہ کراچی میں پانی چوروں کے خلاف بلا امتیاز کاروائیاں جاری رہیں گی لیکن ترجمان نے پانی چوری کا ذمہ دار صرف فیکٹری مالکان کو قرار دیا ہے اور ادارے کے کسی افسر یا ملازمین کے خلاف کاروائی کرنے کے معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہے۔
بڑے پیمانے پر پانی کی چوری کارپوریشن کے ملازمین کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ شہری یہ سوال کررہے ہیں کہ اچانک میئر کراچی و پورڈ کے چیئرمین نے ہدایت جاری کر دی ہے اور اس کاروائی کی نگرانی چیف آپریٹنگ آفیسر واٹر کارپوریشن انجینئر اسداللہ خان نے کی جبکہ اینٹی واٹر تھیفٹ سیل اور چیف سیکورٹی آفیسر سمیت واٹر کارپوریشن کا عملہ بھی آپریشن میں شریک تھا۔
دو دن کی کاروائی لانڈھی کے علاقے لیبر اسکوائر ہسپتال چورنگی کے قریب عمل میں لائی گئی جہاں خفیہ اطلاع پر کی جانے والی کاروائی کے دوران پانی کی چوری میں ملوث تین نجی ٹیکسٹائل فیکٹریوں کو بے نقاب کیا گیا، ان میں ابراہیم ٹیکسٹائل، ایم این ٹیکسٹائل اور فیروز ٹیکسٹائل شامل ہیں جو پانی چوری جیسے سنگین جرم میں براہ راست ملوث پائی گئیں۔ سی او او واٹر کارپوریشن انجینئر اسداللہ خان کے مطابق ان فیکٹریوں نے ہالیجی کنڈیوٹ سے 6 انچ قطر کے غیر قانونی سمر پمپ لگا رکھے تھے جن کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں گیلن پانی چوری کیا جا رہا تھا۔
اس عمل سے شہریوں کو ملنے والے پانی کے حصے پر براہ راست اثر پڑ رہا تھا اور شہر میں پانی کی قلت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ واٹر کارپوریشن کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر فوری کاروائی کرتے ہوئے تمام غیر قانونی سمر پمپ منقطع کر دیئے اور پانی چوری کے نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کردیا۔
سی او او واٹر کارپوریشن کا کہنا ہے کہ پانی چوری میں ملوث تمام عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی اور کسی بھی ذمہ دار کو بخشا نہیں جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ پانی صرف شہریوں کا حق ہے اس پر کسی بھی غیر قانونی قبضے یا چوری کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور جو افراد شہریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالیں گے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
سی او او نے مزید کہا کہ اگر واٹر کارپوریشن کا کوئی اہلکار اس جرم میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی سخت ترین محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کراچی کا پانی چوروں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں بڑی کامیابی کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔ کئی ماہ سے جاری پانی چوری کا سلسلہ جاری تھا یہ کاروائی پورٹ قاسم انڈسٹریل ایریا کے قریب عمل میں لائی گئی ہے جہاں ڈینم انٹرنیشنل نامی ٹیکسٹائل کمپنی ہالیجی کنڈیوٹ سے غیر قانونی طور پر پانی حاصل کر رہی تھی۔
واضح رہے کہ دورانِ معائنہ انکشاف ہوا کہ کمپنی 6 انچ قطر کے غیر قانونی سمر پمپ کے ذریعے ہالیجی کنڈیوٹ سے یومیہ لاکھوں گیلن پانی چوری کر رہی تھی۔ واٹر کارپوریشن کی فوری کاروائی کے نتیجے میں غیر قانونی سمر پمپ کو موقع پر ہی منقطع کر دیا گیا۔
مزید قانونی کاروائی کے لیے واٹر کارپوریشن نے پانی چوری میں ملوث عناصر کے خلاف متعلقہ تھانے میں مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے۔ اس موقع پر ترجمان واٹر کارپوریشن نے واضح کیا کہ پانی چوری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اس قبیح فعل میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ واٹر کارپوریشن شہریوں کو منصفانہ اور بلا تعطل پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہا ہے اور اس مشن میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایک سماجی رہنما علامہ رضوان فاروقی نقشبندی نے دعوی تھا کہ یہ غیر قانونی کنکشن چھ سات سال سے لگا ہوآ تھادو سال قبل درخواست دی تھی کاروائ نہ ہوسکا ایک فیکٹری ،80/90لاکھ روپے پانی چوری ہورہا تھا۔