کنسلٹنٹ، کنٹریکٹر، پروجیکٹ ڈائریکٹر کا کراچی میں تعمیرات کا یہ پہلا منصوبہ ہے۔ کمپنیوں نے سرکاری اجازت کے بغیر
دیگر کمپنیوں کو کام کرنے دیا ہے، انہیں معلوم ہے کہ ہمارے پیچھے سندھ حکومت ہے
کینال کی ٹسٹنگ میں نا تجربہ کاری ثابت ہو گئی۔عالمی معیار کے بجائے 30 سے 40 سال پرانا طریقہ کار اپنایا گیا تھا۔
حب کینال سے کی تعمیر سے کراچی کے پانی میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوگا۔
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی کا حب کینال منصوبہ تجربہ گاہ بن گیا ہے، کنسلٹنٹ، کنٹریکٹر اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کا کراچی میں یہ پہلا پروجیکٹ ہے۔
میئر کراچی و چیئرمین واٹر کارپوریشن مرتضٰی وہاب کا سندھ حکومت کے ساتھ کراچی میں یہ پہلا منصوبہ ہے جس پر 14 ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
یہ منصوبہ سندھ پبلک پرائیویٹ پارنٹر شپ کے تحت کئی سالوں تک سندھ حکومت دیکھ رہی تھی، تاہم میئر کراچی و چیئرمین کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، مرتضی وہاب نے سندھ حکومت سے منصوبے پر براہ راست فنڈز جاری کرائے ہیں۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جو گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ایک سرکاری ادارے سے دوسرے سرکاری ادارے کو تعمیرات کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ یہ ٹھیکہ گورٹمنٹ ادارہ (وا) کنسٹرکشن کمپنی(عسکری ادارے) کو دیا گیا ہے۔

کراچی میں ان کا یہ پہلا بڑا منصوبہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق حب ڈیم میں نئی کینال کی تعمیر اور پرانے کینال کی مرمت و دیکھ بھال پر تقریبا 12.74 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ منصوبے میں گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ یہ اہم نوعیت کا منصوبہ ہے۔
کنٹریکٹر واء کنسٹرکشن کمپنی نے خود کام کرنے کے بجائے بدعنوان کنٹریکٹر اشرف ڈی بلوچ کمپنی کے مالک سکندر بلوچ کو تعمیرات کی اجازت دے دی ہے جو سپرا قانون کے برخلاف ہے۔
اسی طرح جی تھری(G-3)پنجاب کی کنسلٹنٹ کمپنی نے کام کے بجائے کراچی کے عثمان اینڈ کمپنی کو کام دیدیا ہے۔ یہ وہی عثمان اینڈ کمپنی ہے جسے اس کی نا اہلی اور خراب کارکردگی کی بنیاد پر DHA سٹی منصوبہ سے برطرف کر دیا گیا تھا اس کے باوجود اس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ہے۔
اسی عثمان اینڈ کمپنی کی وجہ سے ہی کراچی کا میگا پانی کا منصوبہ کے فور تباہ و برباد ہو گیا تھا۔اب سندھ سرکار نے بغیر کسی سرکاری معاہدے کے بدنام زمانہ کنسلٹنٹ کمپنی عثمان اینڈ کمپنی کو بطور کنسلٹنٹ مقرر کر دیا ہے۔
نئی حب کینال کراچی کا یہ منصوبہ ادھورا نامکمل منصوبہ بن گیا ہے۔ منصوبے میں نہ پانی کے فلٹر میں اضافہ کیا گیا،نہ پمپنگ کی صلاحیت بہتر کی گئی۔ مبینہ طور پر اس منصوبے میں ناقص تعمیرات اور بدعنوانی کی وجہ سے 14 ارب روپے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
ناقص منصوبی بندی کی وجی سے اس منصوبے سے کراچی کے پانی میں اضافہ بھی نہیں ہوگا ابتہ یہ میئر کراچی و واٹر کارپوریشن کے چیئرمین کا ناکام منصوبہ ہوسکتا ہے۔ حب کینال کی تعمیر کی وجہ سے کینال اپنی 50 سال مدت پوری کرچکا ہے۔
حب ڈیم کا معاہدہ واپڈا سے 1984ء میں ہوا تھا۔ پہلے منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک واپڈا دیکھ بھال اور مرمت کرتا تھا، نئی بلدیاتی نظام کے دوران واپڈا نے زیرو پوائنٹ سے 22.74 کلومیٹر تک کینال کی ذمہ داری 2001ء میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سپرد کر دی تھی جس کے بعد کینال کی دیورایں اور پلیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں۔
جگہ جگہ دراڑیں پڑ جانے سے پانی مسلسل ضائع ہو رہا ہے اور حب ڈیم سے 10 کروڑ گیلن پانی یومیہ منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک پہنچنے کے بجائے صرف چھ کروڑ 20 لا کھ گیلن یومیہ پہنچ رہا ہے۔ کراچی میں 20 سال بعد صرف 3 کروڑ 80 لاکھ گیلن پانی کا اضافہ ہوگا۔
اس منصوبے کو جی تھری کنسلٹنٹ اور کنٹریکٹر واء کنٹریشن کمپنی (عسکری ادارے) کو براہ راست سندھ حکومت نے ٹھیکہ دیا تھا۔ واء کنسٹرکشن کمپنی نے منصوبے کی تعمیرات نہیں کی بلکہ بدنام و بدعنوان کمپنی اشرف ڈی بلوچ (فیم سنکدر بلوچ) کو آٹھ ذیلی یا سب کنٹریکٹ دیدیا تھا۔
حب کینال کی نئی کینال کی تعمیر مذکورہ کمپنی نے کی تھی۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر سکندر زداری،ان کے ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر مصطفی مگھن ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق ناقص تعمیرات پر سب کنٹریکٹ کے خلاف قانونی کاروائی نہیں ہو سکتی۔ تمام تر ذمہ داری واء کنسٹرکشن کمپنی اور جی تھری کنسلٹنٹ کمپنی کی ہو گی۔ حب کینال کی ٹیسٹنگ پر سوالیہ نشان ہیں۔ ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

جب سے حب کینال کی خبروں نے میڈیا اور اخبارات میں جگہ بنائی ہے، اس کے بعد سے واٹر بورڈ کے افسران، خصوصاً چیئرمین و میئر کراچی مرتضیٰ وہاب مسلسل مختلف وضاحتیں پیش کرتے رہے ہیں جس میں ہر وضاحت پہلی وضاحت کے متضاد ہوتی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ حب کینال کی تعمیر اور اس کی ٹیسٹنگ کے تمام مراحل ”قانونی تقاضوں” اور ”انجینئرنگ کے اصولوں” کے مطابق مکمل کیے گئے ہیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
اندرونی معلومات کے مطابق وہ تمام انجینئرنگ مراحل جو بین الاقوامی معیار کے مطابق کسی بھی کینال کو پانی بھرنے سے پہلے مکمل کیے جاتے ہیں یہاں انجام ہی نہیں دیئے گئے۔
ماہرین کے مطابق کم از کم تین دن تک پانی بھر کر رِساؤ اور ڈھانچے کی مضبوطی کا بغور معائنہ ضروری ہے لیکن یہ مرحلہ نظرانداز کر کے براہِ راست افتتاح کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

انجینئرنگ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر
بغیر مکمل ٹیسٹنگ کے حب کینال میں پانی
چھوڑا گیا تو خطرات کئی گنا بڑھ سکتے ہیں۔
رساؤ یا ڈھانچے میں خرابی کی صورت میں
بعد میں مرمت نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ
کراچی کے بڑے حصے کو پانی سے محروم کر
دے گی۔ٹیسٹنگ کا اصل طریقہ کیا ہے؟
ماہرین نے واضح کیا کہ کینال کی ٹیسٹنگ کا عالمی معیار درج ذیل ہے: پہلے مرحلے میں کینال کو اچھی طرح خشک معائنہ کر کے صفائی کی جاتی ہے۔پانی آہستہ آہستہ بھر کر 20 سے 30 فیصد دباؤ پر ایک سے دو دن تک مانیٹرنگ کی جاتی ہے پھر مرحلہ وار 50٪، 75٪ اور آخر میں 100٪ پانی بھر کر ہر مرحلے پر رِساؤ، کریک اور مٹی کے بہاؤ کو چیک کیا جاتا ہے۔مکمل بھراؤ کے بعد کم از کم تین دن مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔ آخر میں پانی خالی کر کے تمام نقائص دور کرنے کے بعد ہی اسے مستقل آپریشن میں لایا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی مکمل مرحلہ سرکاری طور پر دستاویزی شکل میں موجود نہیں۔ افتتاح کی دوڑ میں پروجیکٹ کی ممکنہ خرابیاں ”پانی میں دفن” کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو کہ ماہرین کے نزدیک سراسر خام خیالی ہے۔
نئی حب کینال ادھورا ناکام منصوبہ بن گیا،کراچی میں پانی کا اضافہ نہیں ہوگا، کارپوریشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبہ میں پمپنگ کی گنجائش میں اضافہ کرنے کے لیئے فنڈز مختص نہیں گیا۔ منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن کا پانی 10 کروڑ گیلن تھا جس کی دیکھ بھال اور موٹرز کی مرمت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشن صرف دو موٹرز سے 7 کروڑ گیلن پانی پمپ کیا جارہا ہے۔ پمپنگ اسٹیشن میں 20 سال قبل تعمیرات سابق ناظم کراچی نے کے تھری منصوبہ کے طور پر تعمیرات کی تھیں جس میں کے تھری کا پانچ کروڑ گیلن پانی کی فراہم کیا گیا تھا۔
کنسٹرکشن کا نظام بھی درست نہیں، موجودہ پمپنگ اسٹیشن میں 7 کروڑ گیلن پانی یومیہ فلٹر کیا جارہا ہے اگر حب کینال مکمل ہونے پر 10 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کے باوجود فلٹریشن نہیں ہوسکتا ہے نہ پمپنگ کی گنجائش ہو گی۔