نان ریونیو واٹر شعبے کے نگراں سی ای او ہونگے جبکہ 211 پمپنگ اسٹیشن کے ان، آوٹ پر بلک میٹر لگانے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی کراچی میں پانی کی فراہمی اور شہر میں 25 ٹاونز میں سپلائی کا ریکارڈ مرتب کرنے میں ناکام ہو گئی،کسی ٹاون میں زیادہ اور کسی ٹاون میں کم پانی فراہمی کا اعداد و شمار موجود نہیں ۔
ٹیکس ریوینو پانی کے مطابق دو ارب روپے کم وصول کیا جارہا ہے۔ نان ریونیو واٹر (این آر ڈبلیو) پروجیکٹ کو 6 سال گزر چکا ہے، یہ عالمی بینک کی پہلی ترجیحی تھی جو کراچی کی فراہمی آب کا ریکارڈز مرتب کرپانی۔شہر کے 211 پمپنگ اسٹیشنوں کے پانی کی سپلائی کا ریکارڈ مرتب کرنا تھا کہ کس پمپنگ اسٹیشن میں کتنا پانی سپلائی کیا جارہا ہے اور ٹیکس کتنا وصول کیا جاتا ہے۔
واٹر کارپوریشن کے چیف انجینئرز، سپریٹنڈنٹ انجینئرز، ایگزیکٹیو انجینئرز پانی کی فراہمی کا ریکارڈ نہیں ہے وہ 55 سال پرانا نظام یعنی پائپ لائنوں میں انچ، فٹ کے لحاظ سے پانی کا لیول چیک کر کے پانی کی فراہمی کا اعداد و شمار کرتے ہیں۔
آج کے جدید کمپیوٹرائز دور میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پانی کا ریکارڈ موجود نہیں، نہ شہر کے پانی و سیوریج کی منصوبہ بندی کی گئی۔یہ المیہ ہے کہ ورلڈ بینک کے 43 ارب روپے کا قرضہ کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی اور سندھ سرکار نے کاغذوں میں خرچ کرنے کے باوجود پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا، نہ سیوریج کے گندے پانی کے مسائل سے نجات ملی۔
تمام فنڈز افسران کی شاہ خرچیوں، گاڑیوں، مراعات، دورے اور اللے تللے پر خرچ ہوچکا ہے اور ادائیگی کراچی کے عوام سے وصول کی جائے گی۔ عوامی حلقوں نے کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی کے ملنے والے فنڈز کا حساب میڈٰیا کے ذریعے منظر عام پر لانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
ورلڈ بینک کی ہدایت کے باوجود کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی کی ناکامی پر چیف ایگزیکٹوز آفیسر احمد علی صدیقی نے واٹر کارپوریشن کی نان ریونیو واٹر پر عملدرآمد کے لئے اپنی نگرانی میں 11 رکنی نان ریونیو واٹر شعبہ تشکیل دیدیا ہے، جس کا حکمنامہ NO.KW&SC/DP/DDHR/2123 بتاریخ 11 ستمبر 2025ء کو جاری کیا ہے، جس کے تحت این آ ر ڈبلیو میں انجینئرنگ ٹیکس ریونیو کے افسران کو شامل کیا گیا ہے۔


سپریٹنڈنٹ انجینئر بلک میٹر طارق لطیف این آر ڈبلیو کا سربراہ ہوں گے جبکہ این آر ڈبلیو کے ڈائریکٹر نثار مگسی کو ممبر تعینات کیا ہے، سپرٹنڈنٹ ایکزیکٹیو انجینئر تنویر شیخ,ایگزیکٹو انجینئر دلاور جعفری،اشفاق نبی پلیجو، ڈپٹی ڈائریکٹر الہی بخش بھٹو، ظفر قاضی،اسٹنٹ ڈائریکٹر محمد جواد الرحمن، سید مظہر علی، ندیم احمد اور منصور کیانی کی تقرری کی گئی ہے اور اس شعبہ میں مزید تقرری کی جائے گی۔کراچی میں 176 پمپنگ اسٹیشن کے علاوہ 35 مقامات پر بلک میٹر لگائے جائیں گے۔
اس سلسلے میں ورلڈ بینک قرضے سے بلک کمپیوٹراز میٹر لگانے کا منصوبہ شامل ہے۔ عالمی بینک کی ہدایت پر چھ سال قبل ایک حکمنامہ NO.KW&SB/DMD/HRD&A/2019/194ؓ بتاریخ 28 فروری 2019ء کو جاری کیا تھا۔ پانی کے اعداد و شمار پیش کرنے میں تمام مینجنگ ڈائریکٹرز ناکام رہے ہیں۔

ورلڈ بینک کی آفر کے باوجود کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کی اور نہ بلک میٹر لگائے گئے۔ سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال نے 2008ء میں بلک میٹر لگانے کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ 66 کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود صرف 22 بلک میٹر لگائے گئے اور دیگر بلک میٹر کی اکثریت شکیل قریشی کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی کے ڈپٹی پروجیکٹ مینجر نے لیئے ہیں لیکن ان کی ہی تحویل میں چوری ہو گئے ہیں جس کی ایف آئی آر درج کر دی گئی ہے اور اب بلک میٹرز کی خریدار ی کا منصوبہ گذشتہ چار سال سے التواء کا شکار ہے۔
شہر کے مسائل حل کرنے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔ کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی کے عثمان معظم پروجیکٹ ڈائریکٹر، شکیل قریشی ڈپٹی پروجیکٹ مینجر، محمد آصف ڈپٹی ڈائریکٹر کے ساتھ پروکیورمنٹ کے افسران شامل ہیں۔
ناکامی پر کسی ایک افسر کے خلاف کاروائی نہ ہو سکی۔ ہاد رہے کہ کراچی، کے پانی کا کوٹہ 42 سال گزر جانے کے باوجود 13 کروڑ گیلن سے محروم 18 کروڑ گیلن چوری، رساؤ کے ساتھ اگر ہائیڈرنٹس اور سب سوائل کے ذریعے لائنوں سے پانی چوری کا اعداد و شمار شامل کر لیا جائے تو کراچی میں پانی کی فراہمی موجودہ کوٹہ سے 25 کروڑ گیلن یومیہ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔
چند علاقوں میں یومیہ اور دیگر علاقوں میں پانی ناغہ کا نظام رائج کر رکھا ہے۔ کراچی کے بے شمار علاقوں میں پانی ایک بوند بھی نہیں پہنچ رہی ہے۔ لاکھوں شہری پانی کی نعمت سے محروم ہیں۔ کراچی میں شہری پانی اور سیوریج ٹیکس ادا کررہے ہیں۔
کراچی کی آبادی کا تیزی سے دباؤ بڑھنے پر تا حال کراچی میں 650 ملین گیلن پانی یومیہ کمی ریکارڈ پر موجود ہے اور ڈیفنس سٹی (فیز نائن)سپرہائی وے، بحریہ ٹاون، فضائیہ ہاوسنگ، ائیرپورٹ سیکورٹی فورس ہاوسنگ پروجیکٹ،نیول ہاوسنگ، ایجوکیشن سٹی، تیسر ٹاون،شاہ لطیف ٹاون، ہاکس بے اسکیم، نجی بلڈرز ہاوسنگ پروجیکٹ، پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز،کچی آبادی، گوٹھ آباد،نئے صنعتی زون،نادرن بائی پاس سمیت دیگر رہائشی اور تجارتی منصوبے میں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
انڈس کے مختلف ذرائع سے ملنے والے پانی کینالوں، سائفن،کنڈیوٹ اور کراچی تک پہنچنے والے پمپنگ اسٹیشنوں تک اعداد و شمار میں فرق موجود ہے۔
ماضی میں کراچی کے ملنے والے کوٹے پر جانچ پڑتال اور نگرانی سمیت مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کراچی کو انڈس سے شہر میں پہنچنے والے پانی میں اعداد و شمار میں نمایاں فرق کا کھوج لگائیں گے اور اپنی رپورٹ میں کینالوں، سائفن، کنڈیوٹ، لائنوں سے چوری ہونے والے پانی کا سدباب بھی کیا جائے گا۔
اوپن ڈیجیٹل میٹرز کی تنصیبات کرنے میں کے جی فیڈر کینال،لنک کینال،گجرو کینال،ہالے جی،گھارو، کنجھر جھیل،کلری فیڈرز بھی شامل ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی کے پانی میں ایک بوند کا اضافہ نہ ہوسکا لیکن کینال اور نہر سے پانی کی کھلے عام چوری، کنڈیوٹ لائن، سائفن سے پائپوں کی چوری اور رساؤ کا سلسلہ جاری ہے اور کراچی کو پانی کی سپلائی میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جارہا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔