واٹر کارپوریشن غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور پانی چوروں کے خلاف کاروائی میں ناکام؟

ہائیڈرنٹس

ہائیڈرنٹس کی آمدنی کم، نیپا،صفورا کے این ای کے میں دو ہائیڈرنٹس بند،ماہ اگست میں 31 کروڑ کی آمدنی،این ایل سی ہائیڈرنٹ کو بلک صارفین سے ہائیڈرنٹس سیل کی نگرانی میں دینے کا حتمی فیصلہ۔

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) واٹر کارپوریشن،ہائیڈرنٹس کی ماہ اگست میں آمدنی کم ہو گئی،این ایل سی (دفاعی) ہائیڈرنٹ کی آمدنی شامل نہیں ہے، جبکہ نیپا،صفورا پر چھاپہ کے دوران بے ضابطگی پر ایک ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے سے آمدنی ہوئی ہے،سپریم کورٹ کی ہدایت پر 7 اضلاع میں 7 ہائیڈرنٹس، دفاعی اداروں کے لئے مختص NLC ہائیڈرنٹ بنانے کی اجازت دی گئی تھی، مبینہ طور پر نارتھ ایسٹ کراچی کے مقام پر نیپا، صفورا کے لئے الگ الگ ہائیڈرنٹس بنا دیئے گئے تھے اور مجموعی طور پر کراچی میں 10 ہائیڈرنٹس واٹر کارپوریشن کی سرپرستی میں یہ منافع بخش کاروبار کر رہے ہیں۔

ہائیڈرنٹس سیل کے سابق انچارج خالد فاروقی نے ایک ماہ میں یہ آمدنی 37 کروڑ روپے تک پہنچا دی تھی۔کراچی میں دو درجن سے زائد ہائیڈرنٹس کی غیر قانونی طور پر گھناونا کاروبار جاری ہے کیونکہ واٹر کارپوریشن کے افسران کی ملی بھگت سے یہ کاروبار جاری ہے۔

اینٹی تھیفٹ سیل کے افسران دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں شریک ہیں اور ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں پوری طرح شامل ہیں جبکہ اینٹی تھیفٹ سیل کا کام غیر قانونی کاموں کو روکنا ہے نہ کہہ ان مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل ہو جانا ہے۔

واٹر کارپوریشن پولیس تھانہ بن جانے اور تین مقدمات درج ہونے کے باوجود ایک بھی ملزم گرفتار نہ ہوسکا نہ ہی پانی چوری میں ادارے کے افسران سمیت کوئی ملازم پکڑا گیا۔کاروپاریشن کے واٹر ٹرنک مین،(WTM)،کورنگی ڈویژن (اسسٹنٹ انجینئر، سب انجینئر، ایکزیکٹیو انجینئر، سپریٹنڈنٹ انجینئر)، پانی چوری پر بننے والی اینٹی تھیفٹ سیل،بلک سپلائی کرنے والی عملے کے ساتھ بلک میٹر کے ذریعے نگرانی کرنے والی میٹر ڈویژن کی آنکھوں کے سامنے پانی کھلے عام چوری کیا جا رہا ہے اس طرح پانی چوروں نے ایک بار پھر ادارے کی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔

ذرئع کے مطابق کراچی میں سب سے متنازعہ چکرا گوٹھ ہائیڈرنٹ رات کی تاریکی میں غیر قانونی طور پر چل رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں مہران ہائی وے پر کنڈیوٹ لائن کھلے عام پانی چوری میں ڈینم انٹرنیشنل کمپنی،: ابراہیم ٹیکسٹائل، ایم این ٹیکسٹائل اور فیروز ٹیکسٹائل کے خلاف ایک طرف مقدمات درج کروائے گئے ہیں دوسری طرف خاموشی سے ان کمپنیوں کے خلاف درج مقدمات ختم بھی ہوگئے جو افسران کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہیں بلکہ مبینہ طور پر افسران کی بھاری نذرانہ وصول کرنے کی اطلاع ہے۔

تحقیقات نہ ہونے کی وجہ سے ادارے میں مکمل خاموشی ہے۔ تحقیقاتی اداروں نے بھی چپ سادھ لے رکھی ہے کیونکہ اطلاع ہے کہ انہوں نے بھی چمک کے آگے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ادارے کے کسی افسر یا ملازم کے خلاف کاروائی نہ ہونے پر مکمل خاموشی ہے۔ پانی کی بڑے پیمانے پر چوری کارپوریشن کے ملازمین کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

شہری یہ سوال کر رہے ہیں کہ بڑے کاروباری طبقے کی وجہ سے اچانک میئر کراچی و پورڈ کے چیئرمین مرتضی وہاب نے ہدایت جاری کر دی تھی لیکن اس کی تحقیقات نہیں کرائی گئی۔

ایک سیاسی پارٹی کے رہنما قیصر بلوچ کی نگرانی میں ہائیڈرنٹ کا کاروبار محدود پیمانے پر ٹینکرز کے ذریعے تیزی سے جاری ہے جس میں واٹر بورڈ کے بااثر افسران نے اس گھناؤنے کاروبار میں مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔

اس سے قبل غیر قانونی چکرا گوٹھ کورنگی ہائیڈرنٹ چلا کر انتظامیہ کو چیلنچ کیا گیا تھا۔ 20 غیر قانونی ہائیڈرنٹس ضلع غربی، کیماڑی میں چلنے کی تصدیق ہونے کے باوجود تاحال کوئی کاروائی نہ ہو سکی، نہ تحقیقات، نہ ادارے کے ملوث افسران و عملے کے خلاف کاروائی کی جاسکی۔

البتہ زبانی طور پر کہا جارہا ہے کہ انتظامیہ پولیس اور رینجرز کی مدد سے 20 ہائیڈرنٹس کو گرائے گی۔ یہ 20 کنکشن۔ غیر قانونی طور پر منگھوپیر، اورنگی، پیرآباد اور مواچھکو تھانے کی حدود میں ہائیڈرنٹس کا گھناونا کاروبار عروج پر ہے۔

ان میں ضلع کیماڑی کے علاقے مواچھکو میں رئیس گوٹھ، کاٹھو گوٹھ،ضلع غربی کے علاقہ پیر آباد میں قبصہ کالونی، اورنگی ٹاون میں کٹی پہاڑی، ایم پی آر کالونی اور منگھوپیر کے علاقہ میں مائی گاڑی، الطاف نگر، خیبر اباد گوٹھ، باہو گوٹھ، عمر گوٹھ، مہران سٹی، غازی گوٹھ، رمضان گوٹھ، ماربل فیکٹری ایریا، ریتی پاڑہ،پختون آباد، گرم چشمہ، یار محمد گوٹھ، ہمدرد یونیورسٹی مبینہ طور پر شاراع فیصل، جمعہ گوٹھ، ڈالمیا روڈ پر بھی ہائیڈرنٹس چل رہا ہے۔

تین ہٹی مزار کے عقب میں پٹیل پاڑہ کے قریب جنجال گوٹھ،بنگالی موڑ، سہراب گوٹھ، گرم چشمہ منگھوپیر، حب پمپنگ اسٹیشن کے نزدیک سمیت دیگر مقامات پر غیر قانونی ہائیڈرنٹس چل رہا ہے۔

کراچی کے درجنوں سب سوئل لائسنس یافتہ بھی کراچی کی لائنوں میں کھلے عام پانی چوری کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں۔

حب کینال اور کڈہ حب کینال کے مقام پر ہائیڈرنٹس چل رہا ہے۔ وادی حیسن قبرستان کے قریب غیر قانونی ہائیڈرنٹ کے نام پر جعلی کاروائی کے ذریعے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کاروائی کا پردہ فاش ہوگیا ہے۔

اینٹی تھیفٹ سیل کی کاروائی میں نہ کوئی ایف آئی آر، نہ کسی کی گرفتاری، نہ ٹینکر پکڑے نہ کسی لائن سے کنکشن نکلے دلچسپ امر یہ کہ یہ ہائیڈرنٹس پانی کی لائنوں میں فراہم ہونے والے نظام 24،33،48 اور 66 انچ قطر سے پائپ لائن پر موجود واٹر بورڈ کے سسٹم سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلایا جارہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائیڈرنٹس سے پانی چوری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے،،علاوہ ازیں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی نے این ایل سی(NLC) کو NEK ہائیڈرنٹ سپرہائی وے کو دفاعی اداروں کو پانی سپلائی کا ٹھیکہ دیا گیا تھا،نہ واٹر کارپوریشن کا عملہ ہے، نہ نگرانی کے کوئی انتظامات ہیں، نہ پانی کے سپلائی کا ریکارڈ، نہ جنرل پرائس سسٹم موجود ہے۔

ایک بھی دفاعی اداروں کو پانی ٹینکروں سے سپلائی کیا جاتا ہے، بلکہ ائیر فورس، نیوی، فوج، رینجرز سمیت د یگر اداروں کو پانی سرکاری نرخ پر ہائیڈرنٹس سیل فراہم کرنا ہے۔

ہائیڈرنٹس سیل کے انچارج صدیق تنیو کا کہنا ہے

کہ این ایل سی کا نیا معاہدہ ہائیڈرنٹس سیل سے

ہوگا، ہم ٹھیکیداروں کو قانون پر عملدرآمد کرائیں

گے۔ عملے کو تعینات کیا جائے گا، نگرانی کے لئے سی

سی کیمرے لگائیں گے، بلک لائنوں پر میٹر اور

نگرانی کے ساتھ پانی کی فراہمی اور سپلائی کا

ریکارڈ مرتب کریں گے۔

این ایل سیکے درمیان معاہدہ پہلے بھی ہائیڈرنٹس سیل نہ تھا، یہ ہائیڈرنٹ ریونیو ریورس ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر بلک براہ راست دیکھ رہے تھے۔ یہ ہائیڈرنٹ مکمل طور پر تجارتی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔

واٹر کارپوریشن سے 40 پیسہ میں لیکر تین روپے گیلن پانی فروخت کررہے ہیں۔ ادارے کی ہدایت پر ایک گیلن یا ایک ٹینکر ڈیمانڈ نہیں کرسکتا ہے۔

اس بارے سفارشات مرتب کی گئی ہے جو واٹر کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر احمد علی صدیقی کو پیش کر دی گئی ہے ان کی منظوری کے بعد این ایل سی ہائیڈرنٹ سے معاہدہ کیاجائے گا،

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں