بورنگ مافیا کی من مانی،جنگل کا قانون بن گیا

بورنگ مافیا کی من مانی

شہر کی مرکزی شاہراہ پر لیاری ندی میں کئی روز سے جاری غیرقانونی کام سے انتظامیہ لاعلم، کارپوریشن نے تصدیق کر دی

کمپنی نے 10 ارب روپے کراچی کی لائنوں کے پانی کو فروخت کر کے تمام انتظامیہ کو چیلنج کر دیا ہے۔

ستر ائسنس، 292 بور، ساڑھے پانچ کروڑ روپے آمدن، افسران پر اپنی جیبیں بھرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) واٹر کارپوریشن میں اندھیر نگر چوپٹ راج ہے، شہر میں بورنگ مافیا کی من مانی جنگل کا قانون چل رہا ہے کوئی پرسان حال نہیں، اس ضمن میں نگرانی کرنے والے ادارے کے متنازعہ بیانات سامنے آگئے ۔

چار پانچ روز سے تین ہٹی پل کے نیچے لیاری ندی میں کئی طاقتور سب سوائل کے ٹھیکیداروں کے بیک وقت بورنگ کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سب سوئل واٹر(بورنگ مافیا) بغیر کسی لائسنس اور بغیر کسی NOC کے دیدہ دلیری سے غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔

بورنگ مافیا کی من مانی،جنگل کا قانون بن گیا

مبینہ طور پر کارپوریشن کے کسی اہلکار نے چھان بین کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ کسی کے خلاف کوئی ایکشن ہوا، نہ کسی کےخلاف مقدمہ درج کیا گیا، مال مفت دل بے رحم۔کراچی شہر میں عوام بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں لیکن واٹر کارپوریشن کے حکام کی ہوس زر نے لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔

حکام کا کہنا ہے کہ صرف ہمارا خیال رکھو باقی جو چاہے کرو۔21 اگست بروز جمعہ رات اطلاع ملی کہ مصروف شاہراہ تین ہٹی پل لیاری ندی میں بڑے پیمانے پر بورنگ کا کام کیا جا رہا ہے تو اگلے دن ایک دوست سے استدعا کی کہ وہ لیاری ندی میں جا کر درست اطلاعات فراہم کریں مجھے اتوار کی دوپہر میں ایک ویڈیو ملی، جس میں بتایا گیا ہے شریف آباد تھانے کی حدود میں چار بور کیے گئے ہیں ۔

کمپنی کا نام اشرف ڈی بلوچ (فیم سکندر جتوئی) کا نام لیتے ہوئے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ بورنگ کا کام کررہے ہیں لائسنس، این او سی کے بارے میں نہیں جانتا،اس معاملے میں جان محمد بلوچ کا نام لیا جا رہا ہے۔

پہلے ہی شکیل مہر کے درجنوں بور پل کے نیچے نظر آرہے ہیں، اس اطلاع پر سب سوائل واٹر کی فہرست کی جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ اشرف ڈی بلوچ کمپنی کا نام نہیں۔ تحقیقات کے دوران دوست کو کال کرکے معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی تو اس نے بتایا کہ اشرف ڈی بلوچ کمپنی کام کر رہی ہے اور یہ شکیل مہر کے کام ہیں۔

یہ بات معلوم ہونے پر سب سوائل کمیٹی کے کنوینر و سی ایف او انجم توقیر ملک کو ویڈیو ارسال کی پہلے تو انہیں معلوم ہی نہیں تھا، تھوڑی دیر بعد کمال نامی اہلکار کا فون آیا کہ یہ ہمارے لائسنس یافتہ ہیں ۔

ان سے دریافت کیا گیا کہ لائسنس ملنے کے بعد کراچی شہر میں کسی بھی جگہ کھود سکتے ہیں تو وہ گھبرا گیا اور کہا کہ یہ کنوینر کو معلوم ہو گا میں آپ کو موقع پر پہنچ کر بتا سکتا ہوں۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں سب سوئل اہلکار کمال نے موقع پر دو ویڈیو اور ایک تصویر ارسال کی اور ایک لائسنس، ایک این او سی بھی سی ایف او کی ارسال کی۔ تصویر میں ایک گاڑی پنک کلر پلاسٹک کی کھڑی تھی اور پلاسٹک کچی بستی کے سامنے بور کیا جارہا ہے۔

تین ہٹی کے دو پل صاف نظر آرہے ہیں،ایک فلائی اوور لیاری ایکسپریس وے اور دوسرا تین ہٹی پل ہے، ایک ویڈیو 5 بجکر 40 منٹ بروز اتوار مورخہ 24 اگست ریکارڈ کی گئی ہے گوگل میں لیاری ایکسپریس وے،الیاس گوٹھ کراچی میں بتایا گیا ہے وہاں میں موقع پر پہنچ گیا-543 این اے کھڑی تھی ڈرائیور موجود نہیں،جیسے آتے ہی یہاں سے گاڑی ہٹائی جائے گی۔کام کرنے والے اہلکار نے موبائل پر لائسنس دکھایا لائسنس میں حاجی اجمل خٹک کا نام لیا جارہا ہے ۔

دوسری ویڈیو موقع پر ریکارڈ کی گئی ہے اس میں وقت 5 بجکر 32 منٹ ہے، اس میں محمد اعظم کا بھی نام ہے وہ موجود تھے ان کا کام بند کرا دیا گیا ہے۔ یہ پروز پیر کو دفتر آ کر لیڑ لیئے گئے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا سب سوئل کی بورنگ مافیا پر مکمل کنٹرول نہیں یہ بورنگ مافیا شہر کی کسی بھی زمین سے پانی نکال کر مہنگے داموں میں فروخت کر رہے ہیں ۔

رپورٹر نے جب سب سوائل کے کنوینر انجم توقیر ملک سے دریافت کیا کہ اشرف ڈی بلوچ کمپنی کے پاس لائسنس نہ ہونے کے باوجود کھلے عام بورنگ کا غیر قانونی کام کررہے ہیں تو کیا آپ نے ویڈیو نہیں دیکھی ہے جس میں کسی اعظم نام کا لائسنس جاری کیا تاہم اس کی کوئی این او سی موجود نہیں ہے اور آپ مقدمہ درج کریں غیر قانونی کام کرنے والے گرفتار کریں، انہوں نے تسلی بخش جواب نہ دیا اور یہ کہہ کر کہ معلوم کرکے بتاتا ہو ں، اس کے بعد جواب نہ آنے پر تمام ویڈیو اور تصاویر جاری کر دیں ۔

لائسنس اور ایک این اوسی کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹوز آفیسر احمد علی صدیقی کو تمام ثبوت وٹس اپ کیا انہوں نے کچھ دیر بعد ایک سی ایف او کو وائز میسج ارسال کیا جس میں انہوں نے چیف ایگزیکٹوز آفیسر احمد علی صدیقی کو بتایا کہ لائسنس والی کمپنی ہے تاہم این او سی نہ ہونے پر کام بند کردیا گیا ہے اور مکمل کنٹرول ہے ۔

پریشان حال حیرت زدہ شہر میں غیر قانونی کام کرنے کی اجازت پر اتھارٹی یا کارپوریشن کی رٹ چیلنج ہے ۔ شہر میں کارپوریشن کی سب سوئل واٹر نے 70 کمپنیوں کو لائسنس جاری کیا جنہوں نے 292 بور شہر کے مختلف مقامات پر کرکے کراچی میں 10 ارب روپے سے زائد کما رہے ہیں اور ادارے کے آمدن ساڑھے پانچ کروڑ روپے بتائی جارہی ہے، کسی کمپنی کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا ۔

بورنگ مافیا کی من مانی،جنگل کا قانون بن گیا

لیاری ندی کے واقعہ پر سب سوئل واٹر کے نام پر لاقانونیت کا راج ہے۔ کارپوریشن کے افسران کو کوئی معلومات نہیں،شہر کو بورنگ مافیا کے رحم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ زیر زمین پانی نکال کر کراچی کا پانی چوری کرکے مہنگا داموں میں فروخت کررہے ہیں ۔

دوسری جانب زیر زمین پانی نکال کر زمین کھوکھلی کرکے زلزلہ و قدرتی آفات کو دعوت دی جارہی ہے جس سے مستقبل میں جانی و مالی نقصانات اور بڑی تباہی ہوسکتی ہے ۔ ارباب اقتدار میں موجود تمام حکام سے کراچی کے شہریوں نے زیر زمین کام کرنے والی تمام کمپنیوں کے خلاف شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔

شہریوں نے نیب سے بھی اپیل کی ہے کہ جس بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی جارہی ہے اور مستقبل میں شہر کو کھوکھلا کرکے قدرتی افات کا شکار کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اس لئے واٹر کارپوریشن کے حکام کے خلاف فوری طور پر کاروائی کی جائے اور ملوث حکام کو گرفتار کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں