پانی چوروں کے احتساب کی تیاری

پانی چوروں کا احتساب

واٹر کارپوریشن ٹربیونل میں پانی چوروں، لائنوں، سب سوئل، ہائیڈرنٹس پر تمام درج مقدمات از سر نو پیش کیا جائے

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) سندھ حکومت نے واٹر کارپوریشن ٹربیونل کے لیے پانی و سیوریج کے دو ماہرین کی تقرری کردی ہے، کارپوریشن کا تھانہ بھی بن گیا، ٹربیونل کے جج کی تقرری کردی گئی ہے ۔ ٹ

ٹربیونل کے رجسٹرار و عملے کی تقرری کے بعد یہ ٹربیونل مکمل ہونے پر اپنا کام شروع کرے گا، واٹر کارپوریشن کے ٹربیونل اور تھانے کی جگہ مختص کر دی گئی ہے۔ تھانہ سی او ڈی گلشن اقبال اور ٹربیونل کی عمارت کارساز میں سی ای او اور سی او او آفس کے ملحقہ احاطے کے ڈبلیو ایس اسی آئی پی میں تعمیر جلد کی جائے گی۔

سیکریٹری بلدیات سندھ نے ایک حکمنامہ NO.SO(HTP-IV),4-34/KWSC/2025 بتاریخ 11 ستمبر 2025ء کو جاری کیاہے،واٹر کارپوریشن ایکٹ 2023ء کے شق نمبر 37(i),(ii),(iii) کے تحت سابق چیف انجینئر اکرم بلوچ کو پانی اور سابق چیف انجینئر غلام قادر عباس کو سیوریج کے ماہرین کے طور پر تین سال کے لیئے تعینات کر دیا گیا ہے۔

دونوں نے کسی قسم کا انٹرویو نہیں دیا ہے بلکہ پسند ناپسند کی بنیاد پر تعینات کیئے گئے ہیں، جبکہ کارپوریشن کے جن چھ سابق افسران کا انٹرویو سی ای او اور سیکریٹری بلدیات سندھ کے پاس ہوئے تھے ان کے نام مسترد کر دیئے گے ہیں کیونکہ سلیکشن تو پہلے ہی کو چکا تھا البتہ دکھاوے کے انٹرویو ضرور ہوئے تھے ۔

پانی اور سیوریج کے ماہر کے تقرری کی نہ کوئی تعلیمی قابلیت ، نہ تجربے کی ضرورت ہے، نہ عمر کی قید ہے ۔ تقرری کے لیے نہ اشتہار، نہ کسی فورم سے پیشکش طلب کی گئی ۔ نہ تنخواہ ملے گی البتہ الاؤنس یومیہ، دفتر، عملہ،گاڑی ملے گا ۔

ایکٹ کے تحت گورنمنٹ نے شفاف انداز میں تقرری کے بجائے من پسند افراد کی تقرری کی اس خبر سے ٹربیونل پہلے ہی مشکوک بنا دیا گیا ہے، تاہم جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں ان کے بارے میں ادارے میں بہت اچھی رائے ہے ان سے بہت اچھی توقعات ہیں وہ صاف ستھرے کردار کے مالک تصور کئے جاتے ہیں ۔

انہوں نے کراچی میں پانی چوروں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایمانداری، صاف شفاف انداز سے قانون کے مطابق کردار ادا کریں گے ۔ م

بینہ طورپر پانی کے ماہر ملیر کے رکن قومی اسمبلی کے رستدارہے سیوریج کے ماہر وزیراعلی سند ھ کے کلاس فیلو بتایا جاتاہے ۔ علاوہ ازیں سابق چیف انجینئر حنیف بلوچ اور سابق سپریٹنڈنٹ انجینئر بشیر بلوچ بھی انٹرویو کے لیئے پیش ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت نے پانی اور سیوریج کے ماہرین کے نام واٹر کارپوریشن سے مانگے تھے جن میں دو ریٹائرڈ ہونے والے افسران بشمول سید محمد جمیل اختر اور منظور علی کھتری کا نام مسترد کردیا گیا ۔

پانی کے ماہرین میں سابق چیف انجینئر محمد منصور صدیقی، سابق چیف انجینئر سید اعجاز کاظمی، اور سیوریج کے ماہر ریٹائرڈ چیف انجینئر اعظم خان نے تقرری کے دوران طریقہ کار پر بطور احتجاج اپنی خدمات دینے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر احمد علی صدیقی، محمد ظفر راجپوت چیف انجینئر سمیت واٹر اینڈ سیوریج کا کوئی افسر انٹرویو میں پیش نہ ہونے پر مجبورا ریٹائرڈ سپریٹنڈنٹ انجینئر بشیر بلوچ کو یکم جولائی کو طلب کر کے ان کا انٹرویو مکمل کیا گیا ۔

سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر صلاح الدین نے نام ارسال کیئے تھے جو تمام مسترد ہوگئے یا انہوں نے معذرت کر لی تھی، ٹربیونل کا قیام دو سال قبل کارپوریشن ایکٹ 2023ء میں کیا گیا تھا، جرمانہ اور قید و بند کا اعلان کردیا گیا ہے ۔

مبینہ طور پر سندھ سرکار پانی چوروں کے 480 مقدمات اور 64 سب سوئل مالکان پر درج ہونے پر مقدمات پر کاروائی سے گریز کررہی تھی، کیونکہ سب سوائل اور پانی چوروں کے سرپرست بھی سندھ سرکار ہے اسی لیئے وہ تاخیر ی حربہ استعمال کررہی تھی ۔

سندھ ہائی کورٹ نے پانی و سیوریج ٹربیونل کے لئے چیئرمین ناصر الدین شاہ اور پھر منیر بخش بھٹو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو چیئرمین مقرر کیا ہے ۔ چیئرمین اور دو ممبران کا انتخاب تین سال کے لئے ہوگا اور کارکردگی پر ان کی خدمات ایک بار تین سال بڑھائی جاسکتی ہے ۔

قانون کے مطابق ٹربیونل میں دی جانے والی درخواست یا شکایات پر 30 دن میں حتمی فیصلہ کرنا ہوگا ۔ ٹربیونل ضابطہ فوجداری سول و فوجداری قانون 1908ء اور کوڈ آف کریمنل لاء (Cr;C)،1898ء کو بھی استعمال کر سکے گی۔ ٹربیونل کے قیام سے تمام بجٹ شیڈول کے تحت دیگر اخرجات کو مختص سندھ حکومت کرے گی۔

ٹربیونل کے خلاف اپیل سندھ ہائی کورٹ میں کرسکیں گے، دیگر ٹیکس کے واجبات کی وصولی، لائسنس کے اجراء کے ساتھ کارپوریشن کی ترجیحات اور ضائع ہونے والے پانی و سیوریج پر کاروائی کرنا شامل ہے ۔

کارپوریشن کے تمام مقدمات اور شکایت کی سماعت صرف ٹربیونل کرے گی، کارپوریشن کا بورڈ اگر ایکٹ کے کسی شق میں رد و بدل یا ترامیم کرنا چاہے گی تو وہ گورنمنٹ سے مشروط ہوگا ۔

ٹربیونل پانی چوری کے کیس، فیس، نرخ کا تعین، ایمرجنسی ورک کے نام پرتحقیقات کے علاوہ دیگر قوانین اور زمینوں کے ایریاز کو سندھ لینڈ ریونیو ایکٹ 1967ء استعمال کیا جاسکے گا ۔ ٹربیونل پانی، سیوریج کے کام میں تمام شکایات، چھان بین، جانچ پڑتال سمیت دیگر جرائم پر 50 لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کرے گا ۔

پانی کے ضائع ہونے پر کم از کم دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائیگا۔کارپوریشن کی اجازت کے بغیر یا لائسنس کے نہ لینے پر پانی کے کاروبار کرنے والے پر دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا ۔ پانی و سیوریج کی تنصیبات کو نقصان پہنچانے پر جرمانہ تین لاکھ روپے ہوگا ۔

کاروباری سیوریج کا کچرا ڈالنے پر چار لاکھ روپے،پانی سیوریج لائنوں کو نقصان پہنچانے پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا ۔ پانی کی لائنوں مین کچرا ڈالنے، کپڑا، تولیہ و دیگر سامان ڈالنے والے پر پانچ لاکھ جرمانہ عائد ہوگا ۔

پانی کے میٹرز کو نقصان پہنچانے پر دس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔دریں اثناء سابق مینجنگ ڈائریکٹر کے ڈبلیو ایس بی غلام عارف نے ٹربیونل کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے پانی چوروں کے خلاف درج مقدمات کو از سر نو چھان بین کرنے اور ایمرجینسی ورک کے نام پر کارپوریشن میں لوٹ مار کرنے والے 2008ء سے اب تک تمام ایم ڈیز سمیت افسران کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مقدمات بھی واٹر کارپوریشن ٹربیونل میں پیش کیے جائیں اور تمام حقائق عوام کو میڈیا کے ذریعے آگاہ کیا جائے ۔

تبصرہ تحریر کریں

آپ کا ای میل پبلش نہیں کیا جائے گا۔ ضروری فیلڈز * سے نشانزد ہیں