سی او او واٹر کارپوریشن اسد اللہ خان کو ایکسٹینشن دینے کی تیاریاں، عوام پر ایک اور ظلم، ورلڈ بینک بھی شریکِ جرم؟
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی اس وقت پانی کے بدترین بحران کی لپیٹ میں ہے۔ بی آر ٹی منصوبے کی تعطل زدہ تعمیرات کے دوران بار بار پانی کی لائنیں پھٹنے سے شہریوں کو 10 سے 12 دن تک پانی کی بندش برداشت کرنی پڑی، جو کراچی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
نہ تحقیقات، نہ کوئی معطل ہوا ؟ نہ کسی افسران کے خلاف ایکشن ہوا نہ کسی کا کوئی احتساب کیا گیا ۔ میئرکراچی مرتضی وہاب کی تحقیقات اور ساڑھے تین ارب مالیت کے منصوبہ کی ادائیگی سرد خانے کی نذر کردیا گیا ۔
اس بارے میں براہِ راست ذمہ دار کون؟ ذرائع کارپوریشن
ماہرین اور شہریوں کا کہنا ہے کہ اس بحران کے براہِ راست ذمہ دار موجودہ سی او او ہیں، جن کی نگرانی میں یہ تمام آپریشن اور منصوبہ جاتی کام انجام پاتے ہیں ۔ ان کی مسلسل نااہلی اور ناقص نگرانی کے باعث لائنیں پھٹتی رہیں، مگر کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا ۔ تحقیقات پر تحقیقات ہورہی ہیں احستاب کسی کا نہ ہوسکا ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ باوجود اس بدترین کارکردگی کے، حکومت سندھ میں سی او او کو دوبارہ ایک سال کی ایکسٹینشن دینے پر غور کیا جا رہا ہے ۔ شہری حلقے سوال کرتے ہیں کہ آخر ایسا نااہل افسر، جو سی ای او کی پوسٹ کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا، عوام پر دوبارہ کیوں مسلط کیا جا رہا ہے؟

کارپوریشن ایکٹ 2023ء کے تحت سی اواو کی تعیناتی 30ستمبر2025ء تک ہے اور مذید توسیع ایک سال 8 ماہ رہ گیا ہے،مبینہ طور پر ایک سال کیا جانے کی توقع ہے ،ک ارپوریشن نےورلڈ بینک کا کردار بھی سوالیہ نشان بنادیا گیا ۔
ذرائع کے مطابق اس سارے معاملے میں ورلڈ بینک کی مبینہ ملی بھگت بھی سامنے آئی ہے، جو شہر کے پانی کے منصوبوں میں شراکت دار ہے ۔ ورلڈ بینک بجائے اصلاحات پر زور دینے کے، ایسے نالائق افسران کو سہارا دے کر شہر کو مزید بحرانوں کی طرف دھکیل رہا ہے ۔
ماہرین کے مطابق یہ روش کراچی کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے ۔ پہلے ہی 80 فیصد ڈپلومہ، بی ٹیک افسران اعلی عہدے پر تعینات ہے، عوام کا غصہ اور بے بسی کا اظہار کررہے ہیں ۔
شہریوں نے کہا کہ پانی کے حصول کے لیے انہیں ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ” کیا یہی اصلاحات ہیں جو ورلڈ بینک اور حکومت سندھ کے اشتراک سے لائی جا رہی ہیں ” ؟
تاریخی پس منظرمیں کارپوریشن نے کراچی کے شہریوں کا مسلسل عذاب میں مبتلہ کر رکھاہے
کراچی کا پانی بحران نیا نہیں ۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں K-I اور K-II منصوبے لائے گئے، پھر 2002ء میں K-III منصوبہ شروع ہوا۔ ان سب کا معیار 54 گیلن فی کس یومیہ (GPCD) رکھا گیا۔ مگر بڑھتی ہوئی آبادی (ڈھائی کروڑ سے زائد) اور پانی کی قلت نے مسئلہ سنگین بنا دیا۔ آج طلب 1200 ملین گیلن یومیہ سے زائد ہے، جبکہ سپلائی بمشکل 550 ملین گیلن یومیہ ہے ۔
تمام حلقوں کا سوال ہے
کیا کراچی کے عوام اتنے بے بس ہیں کہ ایک ایسا افسر، جس کی ناقص کارکردگی نے شہر کو پیاسا کر دیا، دوبارہ مسلط کر دیا جائے۔۔۔؟؟
کیا ورلڈ بینک اور حکومت سندھ کراچی کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے درپے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟